مرد ِ تکبےر.... مجےد نظامی! !

وہ شخص جو ہر موڑ پر، ہر ماحول مےں، ہردور مےں، اللہ اکبر کہہ کر پاکستان کے استحکام اور بقا کے لئے ڈٹ جاتا رہا ہے اور ڈٹ جاتا ہے اسے ےقےناً مرد تکبےر کہنا چاہےے.... اور پھر کوئی تو عےنی شاہد ہو جوےہ گواہی دے سکے....کہ مجےد نظامی نے اےٹمی دھماکے سے پہلے جناب نواز شرےف کو فون پر کےا کہا تھا۔ جی اس روز مےں ان کے دفتر مےں اےک کالم کے بارے مےں بات کرنے گئی تھی۔ جب انہوں نے اپنے منفرد اور اوکھے انداز مےں کہا تھا....دھماکہ کر گزرو وگرنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔ ہماری زندگی کا تجربہ اور مشاہدہ ےہ ہے کہ کوئی بڑا ےا عظےم کام اس وقت تک پاےہ¿ تکمےل کو نہےں پہنچ سکتا جب تک کہ عامل کو کسی بزرگ کسی عظےم شخصےت کی طرف سے دعائےہ جرا¿ت نہ ملی ہو....ےا توانائی سے بھری تھپکی نہ دی گئی....بادشاہ ہو ےا وزےراعظم، وزےراعلیٰ ہو ےا پارٹی کا لےڈر اپنے تئیں اےک کل پرزہ ہی ہوتا ہے ےہ اور بات ہے کہ اس کے سر پر اپنے عظےم والد کا سائبان ہو جو مشاورت کا دےوان بن کے اس کی راہوں کو آسان تر کر رہا ہو ےا کسی مجاہدانہ تب وتاب رکھنے والا اور غازیانہ معاملات پرکھنے والا کوئی بزرگ ، مرشد ےا راہنما راستوں مےں روشنی جلاتا جارہا ہو.... اور جب کبھی 28 مئی آتا ہے اور ےوم تکبےر شاندار طرےقے سے مناےا جاتا ہے۔ مجھے جناب مجےد نظامی کا فقرہ ےاد آجاتا ہے ممکن ہے اس بات کو دہرانا کسی کو اچھا نہ لگے....اور مےں بھی چونکہ ان کے اخبار مےں لکھتی ہوں اس لئے جھجکتے ہوئے ہی ان حقائق سے نقاب کشائی کرتی ہوں۔ کوئی اعتراض کرے تو مجھے چنداں تشوےش نہےں کےونکہ مےں اپنے پڑھنے والوں کے حلقے تک سچائی کو پہنچانے مےں کوشاں رہتی ہوں۔ اےک معاصر اخبار کے اےک اہل قلم اےک بار مجھ سے الجھ پڑے....(سنئے! خواتےن سے الجھنا ان کی نفی کرنا اور ان کو رائٹر نہ ماننا کوئی نئی بات نہےں ہے) سو وہ دانشور الجھ پڑے.... اور ان کی الجھن ےہ تھی کہ مےں نوائے وقت مےں کےوں لکھتی ہوں۔دوسرا ان کا اعتراض ےہ تھا کہ نوائے وقت کےا پاکستان کا ماما لگتا ہے کہ ہر وقت پاکستان کو بچانے کی ترغےب دےتا رہتا ہے.... اور تےسراےہ کہ ....خےر چھوڑئےے اعتراضات کو، کم ازکم مےں ان کے الفاظ نہےں دوہرا سکتی۔ مےرا نظرےہ ہے کہ اخبار کی سرکولےشن کا اےک واضح حلقہ ہوتا ہے جو اخبار خرےد کر پڑھتے ہےں اس حلقے سے باہر اےک اور حلقہ ہوتا ہے جو کسی سے مانگ کر ےا حاصل کرکے اخبار پڑھتے ہےں۔ اےک گھر کے اندر اےک اخبار جاتا ہے مگر گھر کے اندر دس ےا بارہ بالغ افراد ہوتے ہےں وہ باری باری اپنی پسند کا صفحہ اٹھا لےتے ہےں ےہ قارئےن آڈٹ کی کتاب میں درج نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں لکھا لفظ محترم ہوتا ہے .... کسی ایک اہل نظر یا اہل درد کے دل میں بیٹھ جائے تو بھی بڑی بات ہے۔ نوائے وقت کے ماتھے پر ہمیشہ رقم رہے گا کہ یہ قائداعظمؒ کا اخبار ہے۔ یہ علامہ اقبالؒ کے افکار کا ترجمان ہے۔ اور یہ تحریک پاکستان کا پہلا علمبردار ہے۔
آج جب بڑی شدت سے شخصیت پرستی کا رجحان عام ہو رہا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کارکن، وزیر یا مشیر میڈیا پر اور کہیں بھی بات کرنے سے پہلے اپنے لیڈر کے نام کو چومتا ہے۔ پھر بحث کا آغاز کرتا ہے اور جرح کے دوران بار بار اپنے لیڈر ہی کی فتوحات گنواتا چلا جاتا ہے۔ خواہ وہ کسی بھی مسلم لیگی میں سے کیوں نہ ہو، تو کیا اسے قائداعظم محمد علی جناحؒ کا نام بھول جاتا ہے۔ جن کی جدوجہد اور قربانیوں نے پاکستان کی تخلیق کو تعبیر بخشی.... پاکستان ہے تو آپ کا لیڈر بھی ہے۔ پاکستان ہے تو آپ کی پارلیمنٹ وزارت اور اکڑی ہوئی گردن ہے اور کیا کسی کو بھی یاد نہیں کہ علامہ اقبالؒ کی فکر اور فلسفہ نے پاکستان کا نقشہ دیا اور ایک علیحدہ مسلم سٹیٹ کا تصور دیا۔ آج جتنی سیاسی پارٹیوں کے سربراہان ہیں۔ یا لیڈران ہیں کوئی بھی علامہ اقبال اور محمد علی جناحؒ کی خاک پا کے برابر بھی نہیں ہے.... تو وہ کیوں اپنے ورکرز سے یوں اپنی پرستش کرواتے ہیں۔ انہوں نے تو قائداعظمؒ کی سوانح تک کو نہیں پڑھا اور وہ تو علامہ اقبالؒ کے ایک شعر کی بھی تفسیر نہیں بیان کر سکتے.... انہیں تو ماضی کو بھول جانے کا خبط ہے اور ان پر تو ہمیشہ مستقبل میں حکمران رہنے کا بھوت سوار رہتا ہے۔ ان میں سے کئی لیڈروں کو قائد کہلوانے کا جنون ہے.... لگواتے ہیں اپنے نام کے ساتھ قائد کا لازمہ.... کہیں بھی بیٹھے ہوں کسی بھی سرزمین پر ہوں.... مگر قائداعظم محمد علی جناحؒ کے سائے کے برابر بھی کھڑے نہیں ہو سکتے .... سب کا ماضی کھنگال لیجئے۔ سب کا مستقبل ایک ہی خواب ہے۔ انہوں نے تو لیڈر شپ والا قاعدہ ہی نہیں پڑھا۔ قائد کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں اگر مجید نظامی للکار رہے ہیں۔ تو کسی کو برا کیوں لگتا ہے.... وہ تحریک پاکستان میں شامل دستے کے سپاہی رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ کس طرح پاکستان بنایا گیا اور مسلمانوں پر کیا گذری.... قائداعظمؒ نے کیاخواب دیکھا تھا۔ اس کی تعبیر دینے کےلئے اب تک کون آیا....؟.... مذاق بنا رکھا ہے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اقوال کو.... اور نصاب سے نکال دیا ہے علامہ اقبال کی شاعری کو.... صوبوں میں امریکن سٹائل اور یورپیئن سکولوں کی بھر مار کر دی ہے.... ہر سکول نے غیر ملکی نصاب اپنی مرضی سے ترتیب دیا ہے۔ اسلامیات میں سے آیات نکال دی گئی ہیں۔ اور فیسیں لاکھوں تک پہنچ گئی ہےں۔ ان خود ساختہ قائدین نے اپنی ذات سے باہر نکل کر کبھی حالات کا جائزہ لیا ہے کہ سرکاری سکول کیوں اپنی موت آپ مر رہے ہیں اور شاندار پرائیویٹ سکول کس قسم کی نسل پیدا کر رہے ہیں.... آپ سب جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب ان کا تدریسی نظام تھا کیونکہ پاکستان بنتے ہی ان کے سکولوں اور یونیورسٹیوں پر ہندو اساتذہ قابض ہو گئے تھے۔ انہوں نے نصاب تعلیم میں سے علامہ اقبال، قائداعظم کے علاوہ ہر وہ شے نکال دی جو مغربی پاکستان کے تصور سے وابستہ تھی۔ ان کی نئی نسل مغربی پاکستان کو غاصب، ظالم اور حکمران سمجھ کر متنفر ہو گئی.... یہی بات اب سندھ میں دہرائی جا رہی ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہندو اساتذہ بڑے سلیقے سے پاکستان کی نفی کر کے ان کے کچے ذہنوں میں ایک نیا خیال پرو رہے ہیں اور لیڈران کرام اس کارڈ کو جیب میں رکھ کر سیاسی بنک سے کیش کرا رہے ہیں.... اور یہ قائدین.... یعنی آپ کے منہ بولے قائد کیا کر رہے ہیں....؟نعرے لگوا رہے ہیں....جو ان کو کہنا تھا وہ مجید نظامی کہہ رہے ہیں۔ وہ نظریاتی سرحدوں کی بات کرتے ہیں۔ کوئی ریاست نظریے کے بغیر نہ جنم لے سکتی ہے اور نہ قائم رہ سکتی ہے۔ یوم تکبیر کے نعرے لگوانے کےلئے تو کوئی لیڈر آ جائے مگر للکارنے کیلئے مجید نظامی ہوں۔ سب سٹیج پر آ کر ماضی کا سیاپا کر رہے ہیں۔ کوئی ہے ان میں سے جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خود مختاری سے بات کر سکے۔ اس لئے تو وہ ہلیری کو بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی آنکھیں جھکی رہیں....!!
معاف کیجئے قارئین کرام ! اخبار میں مجید نظامی کی للکار سن کر میں ذرا جذباتی ہو گئی.... واہ بھئی واہ
پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے؟
دراصل میں آپ کو ایک واقعہ سنانے کےلئے آئی تھی اور جذبات کی رو میں بہہ کر دور نکل گئی.... یہ بات مجھے میری بیٹے حسن نے بتائی تھی۔ میں اسی کے لفظ دہراﺅنگی حسن بیٹا اشک آباد میں ہوتا ہے بولا”.... امی جان! جس روز انڈیا نے دھماکہ کیا۔ ہمارا دل دھک سے رہ گیا۔ ہم سب پاکستانی اداس ہو گئے۔ پریشان ہو گئے۔ اشک آباد میں جتنے ہندو رہتے تھے۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے مٹھائیاں تقسیم کرنی شروع کر دیں اور پاکستان کے خلاف نعرے لگانے لگے۔ ہم تھوڑے سے پاکستانی تھے۔ ان کے شور شرابے سے دل مسوس کر رہ گئے۔ اور چپ چاپ اپنے گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ ملک بھی پرایا تھا۔ اور لوگ بھی غیر تھے۔ پھر 28 مئی کو پاکستان نے ایک کامیاب دھماکہ کر دیا۔ وہ دن ہمارے لئے جشن عید کا دن تھا۔ ہم پاکستانی اچھلتے کودتے نعرے لگاتے ایک ہوٹل میں اکٹھے ہو گئے۔ ہم نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ ہم نے کسی کی پرواہ نہیں کی۔ اس وقت ہمیں اتنا اچھا لگا کہ اس ہوٹل میں پاکستان سے جو سندھی ہندو ٹھہرے ہوئے تھے وہ بھی نکل کر ہمارے ساتھ آ گئے۔ اس جوش خروش میں شامل ہو کر انہوں نے بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔ میں نے سب پاکستانیوں سے کہا اس ہال میں اکٹھے ہو جاﺅ۔ آج کا ڈنر میری طرف سے ہو گا۔ میں کیک کا آرڈر دیتا ہوں۔ ہم پاکستان کا کامیاب دھماکہ سیلی بریٹ کرتے ہیں۔ پاکستان کے دھماکے نے ہم اوورسیز پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند کر دیئے اس کے بعد کوئی انڈین ہمارے آگے اکڑ کر نہیں چلتا تھا بلکہ ہم اجنبیوں سے کہتے تھے۔ پاکستان ایک ناقابل تسخیر ملک ہے“۔
مجید نظامی ہماری اور ہماری نئی نسل کا فخر بھی ہیں اور دھماکہ بھی!! بقول فیض
ہر اک اولی الامر کو صدا دو
کہ اپنی فرد عمل سنبھالے
اٹھے گا جب مجمع سرفروشاں
پڑیں گے دار و رسن کے لالے
جزا و سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں عذاب و ثواب ہو گا
یہیں سے اٹھے گا شور محشر
یہیں پہ روز حساب ہوگا!

ای پیپر دی نیشن