قومی اسمبلی کی تین نشستوں سے کا میاب ہونے والے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کونسی نشست اپنے پاس رکھتے ہیں،اس کے بارے میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتہائی معنی خیز بات کی ہے کہ سیٹ میں نے چھوڑنی ہے اور اس کے لیئے بے صبرے دوسرے لوگ ہو رہے ہیں تاہم جے یو آئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان کے قریبی زرائع سے بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ کونسی دو نشستیں چھوڑنی ہیں اس کا فیصلہ کرنے کے لیئے جے یو آئی کے اندورنی حلقوں میں مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، گیارہ مئی کے انتخابات میں مولانا فضل الرحمان نے این اے 24,25اور این اے 27سے کا میا بی حاصل کی تھی، الیکشن کمشن کے رولز کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو بھی ایک ہی نشست اپنے پاس رکھنی ہو گی جبکہ باق دونشستوں کی قربانی دینی ہو گی، جے یو آئی کے اندرونی زرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے این اے 27 لکی مروت سے قومی اسمبلی نشست چھوڑنے کا تو اصولی فیصلہ کر لیا ہے اور وہاں سے ضمنی الیکشن کے لیے ظفر اللہ خان مروت اور مولانا محسن کو تیاریوں کی خفیہ ہدایات بھی جا ری کردی ہیں ، زرائع کے مطابق این اے 27 کی زیلی تینوں نشستوں پر جے یو آئی کے ٹکٹ ہولڈر ہی کا میاب ہوئے ہیں لہذا س نشست پر ضمنی الیکشن میں جے یو آئی کے امیدوار کی پوزیشن بہتر ہوگی تاہم مولانا فضل الرحمان اپنے آبائی حلقہ این اے 24اور این اے 25ڈیرہ کم ٹانک کی کس نشست کو اپنے پاس رکھتے ہیں اور کس کو چھوڑتے ہیں یہ فیصلہ ابھی تک نہیں کیا جا پارہا، این اے 24کی زیلی نشستوں میں سے پی کے 64پر جے یو آئی کے امیدوار کے بجائے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار کو کامیا بی ملی ہے، جبکہ پی کے 65سٹی ٹو پر جے یو آئی کے اتحاد سے کا میاب ہونے والے آزاد امیدوار سمیع اللہ خان علی زئی بھی تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں تاہم پی کے 66پروآ سے چونکہ مولانا لطف الرحمان جے یو آئی کے ٹکٹ سے ہی کا میاب ہوئے تھے وہ اب بھی اپنے بھائی مولانا فضل الرحمان کی کسی بھی حلقہ میں چھوڑی گئی سیٹ پر الیکشن مہم چلانے کے لیئے تیار ہیں، اسی طرح این اے 25ڈیرہ کم ٹانک کی زیلی کلاچی کی پی کے 67کی نشست پر جے یو آئی کے اتحاد ی آزاد امیدوار سردار اسرار اللہ خان گنڈہ پور تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں ، مذکورہ قومی اسمبلی کی دو زیلی نشستوں پی کے 68پہاڑ پور سے آزاد کا میاب ہو نے والے جاوید اکبر خان اور پی کے 69پر جے یو آئی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے محمود خان بھٹنی جے یو آئی کے ساتھ اپنی وفاداریاں قائم رکھے ہوئے ہیں،یوں این اے 24سے جے یو آئی کے دواتحادی اور این اے 25سے جے یو آئی کے ایک اتحادی ضمنی الیکشن سے قبل ہے جے یو آئی سے کنارہ کشی اختیار کر گئے ہیں ، جے یو آئی کی قیادت اس بات پر غور کررہی ہے کس جس حلقہ میں قومی اسمبلی کے زیادہ امیدوار وں کا ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا امکان ہو وہی نشست چھوڑ دی جائے تا کہ زیادہ امیدواروں کی موجودگی میں جے یو آئی کو کامیابی ملنے کی زیادہ امید ہے ، دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام اس بات کو بھی مد نظر رکھے ہوئے ہے کہ جس حلقہ سے جے یو آئی کے مرکزی امیر زیادہ ووٹوں کی لیڈ سے کامیاب ہوئے ہیں ضمنی الیکشن میں وہی نشستیں ہی دوبارہ چھوڑی جا ئیں تا کہ اگر مقامی ایم پی ایز کی مخالفت بھی ہو تو ووٹوں کی کم لیڈ کے باوجود ضمنی الیکشن میں جے یو آئی کے نامزد امیدوار کی کا میا بی کو یقینی بنایا جا سکے، اب ایک نظر مولانا فضل الرحمان کے تینو ں نشستوں پر حاصل کردہ ووٹوں پر بھی ڈال لی جائے تو صورت حال کچھ یوں نظر آتی ہے کہ این اے 24پر مولانا فضل الرحمان نے ٹوٹل 92395 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مدمقابل پی پی پی کے سینیٹر وقار احمد خان نے 67769ووٹ لیئے یوں یہاں مولانا فضل الرحمان 24626ووٹوں کی برتری رکھتے ہیں۔اسی طرح این اے 25 ڈیرہ کم ٹانک پر مولانا فضل الرحمان نے 77595ووٹ لیکر کا میا بی حاصل کی ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے داور خان کنڈی نے 47543اور پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل کریم خان کنڈ ی نے 46262ووٹ حاصل کئے ، داور خان کنڈی اور فیصل کریم خان کنڈی قریبی عزیز ہیں اور کنڈی خاندان کے اکابرین اس کوشش میں ہیں کہ ضمنی الیکشن میں کنڈی خاندان کا ایک ہی فرد میدان میں آئے تا کہ مجموعی ووٹ ایک ہی شخص کو ملے او اگر کنڈی خاندان اتحاد کی آئیڈیل صورت حال قائم کر پاتے ہیں تو پھر مد مقابل امیدوار کے لیئے یہاں جیتنا مشکل ہو سکتا ہے اور اس بات کا مولانافضل الرحمان کو بھی احساس ہے، اگر انہیں کنڈی خاندان کے اندورنی ززائع سے خاندان کے یقینی اتحاد کا علم ہو گیا تو پھر مولانا این اے 25کی نشست نہیں چھوڑیں گے اور اگر ضمنی الیکشن میں بھی دونوں کنڈی میدان میں رہتے ہیں تو پھر ضمنی الیکشن میں جے یو آئی اچھے ووٹ بنک سے سٹارٹ لے گی، یہاں این اے 25پر یہ بھی شنید ہے کہ پی ٹی آئی کے پی کے 64سے کامیاب ایم پی اے علی امین خان گنڈہ پور کے والد سابق صوبائی وزیر میجر امین اللہ گنڈہ پور کی یہ بھی خواہش ہے کہ متوقع ضمنی الیکشن میں این اے کا ٹکٹ داور کنڈی کے بجائے ان کے بیٹے کپٹن عمر امین کو دیا جائے کیو نکہ گذشتہ کئی انتخابات میں داور کنڈی یہ سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ، این اے 27لکی مروت کی سیٹ پر بھی مولانا فضل الرحمان کا میاب ہوئے جہاں انہوں نے 51فیصد کے حساب سے 85051ووٹ لیئے جبکہ ان کے مد مقابل مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں کے مشترکہ امیدوار سلیم سیف اللہ خان نے 56824ووٹ لیئے، یہاں مولانا فضل الرحمان کو 28227ووٹوں کی برتری حاصل ہے، لکی مروت کی قومی اسمبلی کی زیلی صوبائی اسمبلی کی تینوں نشستیں بھی جے یو آئی کے ٹکٹ ہولڈر نے حاصل کیں اور یوں اگر یہاں سے مولانا فضل الرحمان دستبردار ہوتے ہیں تو ضمنی الیکشن میں ان کا امیدوار اچھاسٹارٹ لینے کی پوزیشن میں ہوگا۔جے یو آئی کے مخالف امیدوار بھی ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے لیئے تیار ہیں ، پی پی پی کے رہنماء قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم خان کنڈی کہتے ہیں اگر گیارہ مئی ہی کی طرح پہلے سے تیار نتائج دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے تو پھر ضمنی الیکشن میں بھی اس حلقہ کی دونوں نشستیں جے یو آئی جیتے گی اور اگر حقیقی عوامی مینڈیٹ کے مطابق فیصلہ قبول کرنا مقصود ہو تو پھر ضمنی الیکشن میں جے یو آئی دونوں نشستوں سے شکست کھائے گی۔
مولانا فضل الرحمان کونسی دو نشستیں چھوڑیں گے ؟
May 30, 2013