مسلم لیگ ن ضلع ایبٹ آباد میں عوامی رابطے بحال کرے

May 30, 2013

پاکستان کے جمہوری سسٹم کو پٹری سے اتارنے کے لئے لوٹا کریسی سب سے بڑا عنصر ہے۔ ہر انتخابات میں ایک بڑی تعداد آزاد امیدواروں کی کامیاب ہو جاتی ہے۔ جو لوٹا کریسی کی سیاست کو فروغ دیتی ہے اور وہ ہر الیکشن کے بعد نئی سیاسی کشتی کے سوار بن جاتے ہیں۔ اور کئی دفعہ راستے میں ہی وہ اپنی اس کشتی کو چھوڑ کر دوسری کشتی کے مسافر بن جاتے ہیں۔ جو جمہوری سسٹم کے لئے خطرہ کا باعث ہوتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو اگر اپنے ووٹ کی قیمت کو برقرار رکھنا ہے تو وہ کسی بھی الیکشن میں آزاد حیثیت سے انتخابات میں آنے والوں کو مسترد کرنا ہو گا۔ تب جا کر جمہوریت مضبوط ہو سکے گی۔ ورنہ جمہوریت اسی طرح لنگڑی لولی رہے گی۔ اور یہ جمہوری سسٹم پٹری سے اترتا رہے گا۔ جس میں برادری ازم کی سیاست بھی ایک خاص کردار ادا کرتی ہے۔ جب تک پاکستان میں نظریہ کی سیاست نہیں ہو گی اس وقت تک جمہوریت کا مضبوط ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ الیکشن 2013ءمیں بھی ایک بہت بڑی تعداد میں آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ جو شاید روایتی سیاستدان ہیں۔ جن کا قبلہ کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ اقتدار ہے۔ وہ ہمیشہ الیکشن برادری ازم اور ترقیاتی کاموں پر جیت جاتے ہیں اور آگے جا کر عوام کی خدمت کے جذبے کے ساتھ اقتدار والی جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اصل میں وہ عوام کی خدمت کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ اقتدار کی پیاس ہوتی ہے اور یہ بیماری ملک کے دیگر حصوں کی طرح ہزارہ ڈویژن میں بھی بہت زیادہ ہے۔ صوبہ خیبر پختون خواہ نے 13آزاد 97صوبائی اسمبلی کی نشستوں سے کامیاب ہوئے جبکہ ہزارہ کی 20صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں 5آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ اور ہزارہ کے کل رجسٹرڈ ووٹر 234660ووٹوں میں 334891ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں جس شرح سے ووٹ ڈالے گئے وہ ساڑھے 48فیصد بنتی ہے۔ جس میں آزاد آزاد امیدواروں نے تقریباً 14فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن میں 4لوٹوں کا مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ صوبائی اسمبلی میں جبکہ ایک لوٹے کا قومی اسمبلی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ جبکہ ایک آزاد امیدوار مسلم لیگ (ن) کا حمایت یافتہ تھا کیونکہ مانسہرہ کی نشست پی کے 53میں دو مسلم لیگی کھڑے ہو گئے تھے جس پر اس نشست سے ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے اور اس نشست سے آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے سردار ظہور مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوئے۔ جبکہ باقی سب کے سب اقتدار والی جماعت میں گئے۔ ان میں حاجی قلندر لودھی، مشتاق احمد، عبدالحق خان تحریک انصاف جبکہ گوہر نواز خان قومی وطن پارٹی میں شامل ہوئے۔ ہزارہ کے عوام لوٹا کریسی کو کبھی بھی پسند نہیں کرتے ہیں سوائے ضلع بٹگرام اور ضلع کوہستان کے عوام۔ ایبٹ آباد مانسہرہ اور ہری پور میں سخت احتساب کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بدل بدل کر آنے والوں کو ہمیشہ مسترد کرتے ہیں۔ حاجی قلندر لودھی اور مشتاق احمد غنی دس سال تک (ق) لیگ کی چھتری تلے بھاری فنڈ حاصل کر کے حلقہ میں کام کرتے رہے۔ لیکن الیکشن کے وقت وہ (ق) لیگ کو خیرآباد کہہ کر آزاد اور اب تحریک انصاف کی صوبائی حکومت بنتی دیکھ کر اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ حاجی قلندر لودھی کنسٹرکشن کمپنی چلاتے ہیں اس لئے انہیں ٹھیکے چاہئے اور ٹھیکے تب مل سکتے ہیں جب اقتدار ہو۔ جبکہ مشتاق احمد غنی وزارت کی جھنڈی کے پیچھے گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ وزارت کی جھنڈی حاصل کر پائیں گے یا کوئی چھوٹی موٹی مراعات لیکر وقت گزاریں گے۔ مشتاق احمد غنی تحریک انصاف کو چھوڑ کر اقتدار کی خاطر (ق) لیگ میں گئے تھے۔ اب جبکہ ملک بھر میں (ق) لیگ کا بھی وہی حال ہو گیا ہے۔ جب انہوں نے تحریک انصاف کو چھوڑا تھا۔ اب اقتدار صوبے میں تحریک انصاف کو مل گیا ہے۔ اور مشتاق احمد غنی تحریک انصاف میں چلے گئے ہیں۔ یعنی ضلع ایبٹ آباد کی لوٹوں کی صف میں دو نئے لوٹوں کا اضافہ ہو گیا۔ اب عوام آئندہ الیکشن میں ان کے ساتھ کیا کرتی ہے۔ لوٹوں کو مسترد کرتی ہے یا عوام بھی لوٹے بن جائیں گے۔ یوں ضلع ایبٹ آباد میں مسلم لیگ (ن) کو کامیابی نہیں مل سکی جس طرح ہمیشہ ملتی تھی۔ البتہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایبٹ آباد شہر میں دو خواتین مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر مخصوص نشستوں سے ممبر صوبائی اسمبلی بن گئی ہیں۔ اب مسلم لیگ (ن) کے لئے ضلع ایبٹ آباد میں واپس آنے کیلئے اپنے رویوں کو تبدیل کرنا ہو گا۔ کیونکہ وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی مضبوط حکومت بننے جا رہی ہے۔ اس لئے عوام کی شکایات دور کرنے کا وقت ہے۔ مسلم لیگی قیادت مفاد پرستوں سے الگ ہو کر خود عوام سے اپنے رابطوں کو بحال کریں۔ پارٹی میں ٹھیکیداری نظام ختم کر کے عوامی مسائل حل کرنے کے لئے خود کردار ادا کریں، تو کھویا ہوا وقار بحال ہو سکے گا۔ ورنہ آئندہ آنے والے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا اس سے بھی برا حال ہو گا اس الیکشن میں ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں تو مل گئی ہیں۔ کہیں اگلے الیکشن میں ان سے بھی محروم نہ ہو جائیں۔ الیکشن 2013ءمیں سردار مہتاب احمد خان کی شکست کی وجوہات عوام سے دوری ہے۔ وہ عوام سے اس طرح رابطہ نہیں رکھ سکے۔ جس طرح کے رابطوں میں وہ ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ جبکہ ترقیاتی کاموں میں بھی ان کا کوئی ایسا میگا پروجیکٹ نہیں تھا۔ جو ان کے لئے ڈھال بن سکتا۔ سرکل بکوٹ میں انہوں نے مواصلات کے نظام کو بہتر کیا۔ سرکل بکوٹ کے تمام علاقوں کو آپس میں ملانے کے ساتھ ساتھ ایبٹ آباد سے ملا دیا۔ ورنہ بکوٹ، غیل ہلک، بیروٹ اور اس سے ملحقہ یونین کونسل کے لوگ مظفرآباد کے راستے ایبٹ آباد آ کر اپنی کچہری کے معاملات کو نبٹاتے تھے۔ اور ایک معمولی سی تاریخ کیلئے 3دن لگ جاتے تھے۔ اب سڑکیں بن جانے سے عوام کو ایک بڑی سہولت میسر آ گئی ہے۔ لیکن سرکل بکوٹ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے۔ اور عوام اب مطالبات کر رہے ہیں کہ جس طرح سڑکوں کا موثر نظام بنایا گیا ہے اسی طرح تعلیم و صحت کے لئے بھی خصوصی پیکج بنایا جائے۔ جس میں بچیوں بچوں کے لئے اعلیٰ معیار کے سکول و کالج قائم کئے جائیں تاکہ انہیں اپنے علاقوں میں بہتر تعلیم کے مواقع میسر آ سکیں اسی طرح صحت کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہسپتال، بنیادی ہیلتھ یونٹ کی عمارات موجود ہیں لیکن عملہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر نہیں ہیں کہ عوام کو اپنے علاقے میں علاج کی سہولت میسر آ سکے اور چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کیلئے انہیں ایبٹ آباد، مظفر آباد جانا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں تو عوام تبدیلی کی باتیں ضرور کریں گے۔ کیونکہ راقم الیکشن 2013ءمیں مبصر کے طور پر مختلف پولنگ سٹیشن پر گیا۔ جہاں یہ آواز سنی گئی کہ ہم تبدیلی چاہتے ہیں اور وہ علاقے جہاں سردار مہتاب احمد خان کے نام کے علاوہ کسی کا نام نہیں لیا جاتا تھا۔ وہاں تبدیلی کی باتیں ہو رہی تھیں اور وہاں قومی اسمبلی کی نشست پر عوام نے تبدیلی کے نعرے کو سچ کر دکھایا۔ جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر انہیں اسی جذبے کے ساتھ کامیابی دلائی۔ اب وقت تبدیل ہو گیا ہے۔ اس لئے تبدیلی کے اس نعرے کو گہرائی سے دیکھنا ہو گا۔ رابطوں کو مکمل طور پر بحال کر کے عوامی مسائل کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ کیونکہ اب نظریہ کی سیاست ختم اور مفادات کی سیاست شروع ہو گئی ہے۔ اب وہی سیاست کرے گا جو عوام میں اور عوامی مسائل حل کرے گا۔ سردار مہتاب احمد خان نے ہمیشہ نظریے کی سیاست کے ساتھ عوامی مسائل بھی حل کئے۔ اگر وہ علاقہ کی غیرت کا سودا کرتے تو شاید بہت زیادہ ترقیاتی کام ہو جاتے لیکن سرکل بکوٹ سرکل بکوٹ ہی رہتا اس کا نام ملک بھر میں نہ گونجتا۔ کیونکہ سرکل بکوٹ سے اٹھنے والے سردار مہتاب احمد خان نے سرکل بکوٹ کو نام دیا، پہچان دی۔ وزیراعلیٰ بھی بنے وفاقی وزیر بھی بنے وزیراعظم کا الیکشن بھی لڑا۔ لیکن اصولوں پر سودے بازی کبھی نہ کی۔ لیکن اب عوام کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں۔ اب سیاست کرنی ہے تو عوام کی ترجیحات کو بھی دیکھنا ہو گا۔ پھر ہی کامیابی ممکن ہے۔

مزیدخبریں