نئی حکومت کی آمد آمد اور مسئلہ کشمیر میں تیزی

”دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی“ سے مصداق پاکستان میں عام انتخابات میں دھاندلی کی ہاﺅ ہو میں میاں نواز شریف کی سربرایہ میں نئی منتخب حکومت کی آمد آمد ہے اور اس موقع پر مسئلہ کشمیر میں نئی تیزی پیدا ہو گئی ہے سری نگر میں ممتاز کشمیری حریت پسندرہنما محمد یاسین ملک نے مقبول بٹ اور افضل گورو کے جسد خاکی تہاڑ جیل دہلی سے ان کے ورثاءکے حوالے کرنے، بچوں پر ہنگامی قوانین نافذ کرنے، سیاسی اسیروں کو عمر قید کی سزائیں سنانے جیسے ظالمانہ ریاستی اقدامات کے خلاف 48 گھنٹوں کی علامتی بھوک ہڑتال کے اختتام پر اعلان کیا کہ وہ مطالبات کو منظور کرانے کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال کردیں گے اس سے پہلے انہیں متاثرہ خاندانوں کے ہمراہ نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے بھوک ہڑتال کرنے سے روکنے کے لیے سکیورٹی فورسز نے تشدد کا نشانہ بناکر گرفتار کرکے سری نگر کے تھانے میں بند کردیا تھا۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کے چیئرمین میر واعظم عمر فاروق بھی کٹھ پتلی انتظامیہ سے ”کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے“ کی آنکھ مچولی کے ساتھ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز بلند کیے ہوئے ہیں۔ آزادکشمیر میں جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی کی کوششوں سے وزیراعظم آزادکشمیر چودھری عبدالمجید کے تعاون سے آل پارٹیز کشمیر رابطہ کونسل کے قیام کے بعد حالیہ انتخابات کے دوران پاکستانی سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرکے مسئلہ کشمیر کو انتخابی منشور اور انتخابی مہم کا حصہ بنانے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ اس سے پہلے اس حوالے سے عبدالرشید ترابی نے تمام رہنماﺅں کو اس مقصد کے لیے مکتوبات بھی ارسال کیے تھے آزادکشمیر کے صدر اور وزیراعظم جو اپنی حکومت کے پہلے سال میں آرپار کی کشمیری قیادت کی پاکستان کے صدر اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کرانے اور دارالحکومت مظفرآباد میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کے وعدے ایفاءنہ کرسکے تھے لیکن اس رابطہ کونسل کے قیام کے بعد نہ صرف ان دونوں رہنماﺅں (صدر اور وزیراعظم) نے اسلام آباد اور مظفرآباد میں آل پارٹیز کانفرنسز منعقد کرائیں بلکہ رابطہ کونسل کی صورت میں کشمیر ہاﺅس اسلام آباد میں کشمیرکاز کی تازہ ترین صورت حال کو مانیٹر کرنے کے لیے میکانزم کے قیام سے مرکز کی بیساکھی ختم ہو جانے پر آزادکشمیر کی حکومت کو ایک نئی آکسیجن ملی کیونکہ آزادکشمیر کے اپوزیشن لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر اور مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان سمیت مقبوضہ اور آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین اس کونسل میں شامل تھے البتہ ممتاز کشمیری سیاستدان، جے کے پی پی کے صدر اور مسلم لیگ (ن) کے حلیف سردار خالد ابراہیم نے حکومت آزادکشمیر کے سیاسی عزائم کو بھانپتے ہوئے روز اول سے ہی اس کونسل سے الگ رہے۔ عبدالرشید ترابی خود ان دنوں ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لیے انقرہ کے دورے پر ہیں لیکن ان کی کوششوں سے سیکرٹری خارجہ نے پہلی بار دفتر خارجہ کی بجائے کشمیر ہاﺅس میں آر پار کی کشمیری قیادت کو بریفنگ دی اور یقین دلایا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت پر کوئی کمپرومائز کرے گا اور نہ کمزوری دکھائے گا۔ الزامات میں کشمیری قیادت کو شامل رکھنے کی حمایت کرے گا اور کشمیری قیادت کی پیش کردہ تجاویز پر پاکستان کی نئی منتخب حکومت کو بریفنگ دی جائے گی۔ کشمیری قیادت نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی قیادت مسئلہ کشمیر پر معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کریں نت نئے فارمولے پیش کرنے اور کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کرنے سے گریز کیا جائے، یہ اتفاق قابل غور ہے کہ جس روز کشمیر ہاﺅس اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کشمیری قیادت کو بریفنگ دیتے ہوئے ناروے اور یورپی پارلیمنٹس میں مسئلہ کشمیر پر بحث کو خوش آئند قرار دے رہے تھے اسی روز رائیونڈ میں میاں نواز شریف بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کے خصوصی ایلچی ایس کے لامبا سے ملاقات پاک بھارت تنازعات کے حل کے لیے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق رائے کا اظہار کررہے تھے۔ نواز شریف کے وزارت عظمیٰ کے حلف برداری کی تقریب میں شرکت دعوت پر من موہن سنگھ مصروفیات کا بہانہ کرکے معذرت کر چکے ہیں جبکہ اس تقریب میں سرینگر سے سید علی گیلانی، میرواعظم عمر فاروق، شبیر احمد شاہ اور محمد یاسین ملک کے علاوہ آزادکشمیر اور پاکستان میں موجود آرپار کی کشمیری قیادت کو مدعو کرنا چاہیے اور میاں نواز شریف کو جو ماضی میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا سرخ قالین استقبال کر چکے ہیں، بھارت کا دورہ کرنے میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے اور بقول سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد خان انہیں جاتی عمرہ سے پہلے عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جانا چاہیے اور بھارت کے ساتھ مذاکراتی عمل میں جلدبازی کی بجائے کشمیری قیادت کو آن بورڈ رکھنا چاہیے کیونکہ:عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہےستم ظریف بڑے جلدباز ہوتے ہیں

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...