وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا

صدر زرداری کا ایک قول جو تاریخ کا حصہ بن گیا کہ معاہدے قرآن وحدیث نہیں ہوتے، اب میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ہماری حکومت آنے پر یہ امید نہ رکھیں کہ بجلی آ جائے گی۔ان کا شارہ ان وعدوں کی طرف ہے جو انتخابی مہم کے دوران کئے گئے۔اور ان امیدوں کی طرف ہے جن کی تکمیل کے لئے ووٹروں نے ن لیگ کے بکسے بھر دیئے تھے۔
لندن میں میثاق جمہوریت نہ ہوتا تو پاکستان میں جمہوریت کا احیا نہ ہوتا، اس معاہدے کی تکمیل کے لئے محترمہ اپنی زندگی ہارگئیں لیکن جذبوں اور امنگوں سے سرشار ان کے خون نے جمہویت کے پودے کی آبیاری کی۔ ہر چند سپریم کورٹ نے این اآرا و کو وائڈ ایب نیشو قراردے دیا لیکن میاں صاحب نے میثاق جمہوریت کو وئڈ ایب نیشو نہیں سمجھا۔انہوں نے طعنے برداشت کئے مگر فرینڈلی اپوزیشن کا رول ادا کیا ، جمہوریت پہلی بار ثمر بار ثابت ہوئی، سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے طعنہ دیا تھا کہ صرف ان کی چھتری تلے ایک پارلیمنٹ نے اپنی ٹرم پوری کی، مگرزرداری اور نواز شریف کے باہمی تعاون نے ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی آمر کی چھتری کے بغیر پارلیمنٹ کو ٹرم پوری کرنے کا موقع دیا۔ یہ پاکستانی سیاست دانوں کا اعزاز ہے، ان کی دانش اور ان کے تدبر کا بین ثبوت ہے۔
نیا زمانہ میثاق جمہوریت کی دوسری قسط ہے۔ اور اس کی باگ ڈور میاں نواز شریف کے ہاتھ میں ہے۔ وہ ہر دور دیکھ چکے، اچھا بھی اور برا بھی۔مگر وہ رام گلی کو نہیں بھول پائے ہوں گے، یہ عوام کا علاقہ ہے جہاں کے لوگ دکھوں اور اذیتوں کے مارے ہوئے ہیں، رام گلی پھیل کر پورے پاکستان پر محیط ہو گئی ہے اور میاںصاحب کو اس وسیع تر رام گلی کے باسیوں کا دکھ درد بانٹنا ہے، ابھی انہوں نے حلف نہیں اٹھایا اور اس میں اب دیر بھی زیادہ نہیں لیکن یہ کیا کہ لوگوںکے پاس ایک ا ٓس تھی ، وہ اسے بھی توڑ رہے ہیں ، لوگوں کی امید کو مرنے تو نہ دیا جائے، میاں صاحب کو ملک کے مسائل اور وسائل کا پہلے بھی اندازہ تھا، اگر وہ الیکشن میں اترے تو اس چیلنج کا انہیں اچھی طرح علم تھا۔ میں جھوٹ نہیں کہتا، وہ کٹھور ووٹر جو شریف برادران کے ماضی بعید کی گورننس کے مخالف رہے ،لیکن اب شہباز میاں کی پرفارمنس کے پیش نظر وہ دعائیں مانگتے تھے کہ انہیں پھرکامیابی ملے تاکہ وہ اسی لگن کے ساتھ لوگوں کے باقی مسائل کا حل بھی نکالیں، الیکشن سے پہلے اور بعد میں باتیں ہوئیں کہ شہباز میاں وفاق میں جائیں گے ، لیکن لوگ ان کی تنزلی کی دعا کرتے رہے کہ وہ صوبے میں ہی رہیں۔یہ وہ معراج ہے جو کم کم کسی سیاستدان کے حصے میں آتی ہے۔ لوگوں نے دعائیں قبول ہونے کے لئے مانگی تھیں مگر وفاق کا خانہ اور خزانہ، خالی نظر آتا ہے تو دل میں ہول سا اٹھتا ہے، کون اس جنون سے کام کر پائے گا جوشہباز میاں پر طاری تھا۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ ڈیلیور نہیں کریں گے تو ملک میں ایک خونی انقلاب آئے گا اور لوگ سب کچھ نوچ ڈالیں گے، اس نظام کو تار تار کر دیں گے۔کیا یہ ڈر اور خوف کسی اور کو بھی ہے، ہونا تو سب کو چاہئے، اسحق ڈار جدی پشتی رئیس نہیں ، خواجہ سعد رفیق رئیس ابن رئیس نہیں۔احسن اقبال ایک دیندار گھرانے کے چشم و چراغ ہیں مگر وہاں دولت کی ریل پیل نہیں تھی، آپا نثار فاطمہ کے دروازے سب کے لئے کھلے تھے۔مجھے پنڈی کے راجگان کی خبر نہیں ، اس لئے ان کے جلال کے سوا میں اور کچھ نہیں جانتا۔موٹر وے نہیں تھی تو یہ راجے بھی کچی پکی سڑکوں پر سفر کرنے پر مجبور تھے۔ان سڑکوں پر جلال بھی رینگ کر چلتا ہوگا۔
قدرت نے ایک نازک وقت پر ملک کی کمان ان لوگوں کے ہاتھ میں دی ہے، جن کا ماضی ہر ایک کی نگاہ میں ہے مگر کانوں میں وہ وعدے گونج رہے ہیں جو عمران خاں کے مقابلے میںلگائے گئے مگر یہ وعدے تھے۔لولی پوپ نہیں تھے۔بجلی ایک دم نہیں ملے گی ۔ ہر شہری کو اس تلخ حقیقت کا علم ہے لیکن ایک مریض اور اس کے لواحقین کو کوئی ڈاکٹر یہ نہیں بتاتا کہ اس کی صحت یابی کے لئے کئی برس انتظار کرنا پڑے گا، ڈاکٹر دوائی دیتا ہے، اورامید کی ڈوری قائم رہتی ہے۔ بجلی کے لئے کوئی وسیلہ تو پیدا ہوگا ہی، آخر ملک کے مقدر میں ہمیشہ کے لئے اندھیرے تو نہیں لکھ دیئے گئے۔اور پھر ایٹمی طاقت کا کیا طعنہ، اس نے تو بجلی نہیں کھالی۔اور یہ بھی تو حقیقت ہے کہ بھارت اس کی وجہ سے ہمیں نہیں کھاپایا۔بجلی ہوتی اور ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت خدا نخواستہ ہمیں ہڑپ کر چکا ہوتا، دلی دعائیں ان تما م لوگوں کے لئے جنہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنایا، پاکستان کو عالم ا سلام کا قلعہ بنایا، اسرائیل اگر کسی پڑوسی کو ہضم نہیں کر سکا تو اسے صرف پاکستان کی ایٹمی قوت کا ڈر ہے، ورنہ 48,67,73میں اس نے کس ہمسائے کے خلاف جارحیت نہیں کی، گریٹر اسرائیل کے نقشے میں خاکم بدہن مدینہ منورہ کو شامل کیا گیا تھا مگر کوئی اسرائیل کو جا کر کہے کہ وہ اس نقشے میں رنگ بھرنے کی کوشش کرے، اندھیروں میں ڈوبا ہوا پاکستان اسے للکارے گا۔یہی پاکستانی جو پسینے میں شرابور ہیں ، شاہیں کی طرح جھپٹیں گے اور اپنے نبی ﷺکے شہر پر مرمٹیں گے۔ میاں صاحب ! ان جذبوں کو زندہ رکھئے،بجلی زندگی کی ضرورت تو ہے مگر جینے کے لئے حوصلہ، عزم اور ہمت بھی چاہئے اور اپنے ہم وطنوں کو جینے کا حوصلہ دیجئے۔بجلی نہ دیجئے، مگر حوصلہ اور امید تو قائم رہنے دیجئے۔
آج اگر کوئی سوال ہے تو بجلی اور بقا کا ہے، دونوں میںسے کسی ایک کا ہمیں انتخاب کرنا ہے۔میں سو فی صدیقین سے کہتا ہوں کہ امریکہ نے ایبٹ آباد میں ایک جنگی مشق کی تھی تواس کا اصل نشانہ اسامہ بن لادن نہیں تھا۔یہ تو ایک ریہرسل تھی اس گرینڈ آپریشن کی جس کے لئے امریکہ برسوں سے تیاری کر رہا ہے۔وہ پاکستان کی ایٹمی قوت کو ہتھیانا چاہتا ہے۔اس نے ایبٹ آباد میں آپریشن کے ذریعے اپنی مہارت اور ہماری غیرت کا ٹیسٹ کیا ہے۔ہمیں اصل تیاری ان مذموم عزائم کو ناکام بنانے کے لئے کرنی چاہئے، ٹھیک ہے ہمیں بجلی چاہئے، روٹی کپڑا ور مکان چاہئے، میٹرو بس اور بلٹ ٹرین بھی چاہئے، لیپ ٹاپ بھی چاہیے، مگر ہمیں ایک باغیرت زندگی بھی چاہئے۔ایک زندہ قوم ہونے کا ثبوت بھی دینا چاہئے۔ اور صد شکر کہ ایٹمی قوت کے ہوتے ہوئے ہمیں امن کی بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں۔امن دینے کے لئے ایساف کے کمانڈر چل کر ہمارے دروازے پر آ رہے ہیں۔بھارت کے ایلچی رائے ونڈ میں دستک دے رہے ہیں۔ امن یقینی ہو جائے تو میاں صاحب اپنے وعدوں پر توجہ دیں۔انہوں نے مزاحیہ انداز میں کہا ہے کہ پہلے حکومت ملی تو کہا گیا کہ شیر آٹا کھا گیا ، اب یہ نہ کہا جائے کہ شیر بجلی کھا گیا۔
 مگر ایسا بھی نہ ہونے پائے کہ بجلی شیر کو کھا جائے۔یہ شیر جنگل والا نہیں، ایٹمی شیر ہے، اسے کون کھانے کی ہمت کر سکتا ہے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن