محمود غزنوی کے دربار میں ایک شخص فریاد لے کر آیا کہ ایک شخص روز رات کو اسکے گھر میں داخل ہوتا ہے اور تلوار کے زور پر گھر والوں سے زیادتی کرتا ہے۔ اس کو انصاف فراہم کیا جائے۔ محمود غزنوی نے اسکی فریاد سنی اور کہا کہ آج رات جب وہ شخص آئیگا تو ہمیں اطلاع کرنا۔ بادشاہ نے تمام دن اضطراب میں گزارا، جونہی رات ہوئی اور وہ بدمعاش شخص فریادی کے گھر میں داخل ہوا تو بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے دبوچ لیا۔ بادشاہ نے ایک پٹی منگوائی اس کو اپنی آنکھوں پر باندھا اور اس شخص کو دیکھے بغیر قتل کر دیا۔
محمود غزنوی نے اپنی آنکھوں سے پٹی اتاری اور مجرم کو دیکھا تو الحمدللہ کہہ کر ایک لمبی سانس لی پینے کیلئے پانی مانگا پیش کیا گیا۔ پھر بادشاہ کو کھانے کی شدید طلب ہوئی اور کھانا بھی منگوایا گیا۔ دوسری طرف سپاہی اور فریادی حیران تھے بادشاہ سے کہنے لگے ہمیںآنکھوں پر پٹی باندھنے کی سمجھ نہیں آئی آخر ماجرا کیا ہے؟ محمود غزنوی مسکرائے اور کہنے لگے کہ جس وقت اس فریادی کا درد سنا تو مجھے شک ہو گیا تھا کہ ایسا بے لگام کوئی با اثر شخص ہی ہو سکتا ہے جو اتنی دلیری سے اس گناہ کی جرأت کر رہا ہے اور وہ میرے بیٹے کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔ اس لیے میں نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی کہ کہیں میں اپنے بیٹے کو دیکھ لوں تو میری محبت انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ جب میں نے دیکھا مرنے والا میرا بیٹا نہیں تو الحمدللہ کہا کہ اللہ نے اسکو اس بد کام سے محفوظ رکھا۔ پانی اور کھانا اس لیے منگوایا کہ جس وقت فریادی میرے پاس فریاد لایا میں نے قسم کھائی تھی کہ جب تک اس کو انصاف نہیں ملے گا میں کچھ کھاوں اور پیوں گا نہیں اس لیے جب میں نے اس کا حق اس کو دلا دیا تو مجھ سے بھوک اور پیاس برداشت نہ ہوئی۔ یہ تھا ایک عادل بادشاہ ایک مسلمان حکمران جس نے انصاف کو پورا کرنے کیلئے اس بات کی پرواہ بھی نہ کی کہ مرنے والا اس کا بیٹا بھی ہو سکتا ہے اور اس نے بلا تفریق انصاف کو اپنے ہاتھوں سے ممکن بنایا۔ یہ اندھا انصاف تھا جو اپنے پرائے کی تقسیم کے بغیر سب کیلئے یکساں تھا لیکن اب انصاف بینا ہو گیا ہے۔ اس کو دیکھنے والی وہ آنکھ ملی ہے جو اپنوں کو پہچان لیتی ہے ۔ جو ایک شخص کی پشت پر محلات اور دولت کے انبار بھی دیکھ لیتی ہے۔ جو مظلوم کی چھوٹی کٹیا اور نارسائی بھی جان جاتی ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ اسی عدل کے بینا ہونے کا ایک ثبوت ہے ۔
اس رپورٹ کیمطابق تو یوں لگتا ہے جیسے سترہ جون کو ماڈل ٹاون میں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ ملک میں عدل و انصاف کی غیر موجودگی کی بہت بڑی مثال ہے۔ اس سے قوم کے باضمیر لوگ عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں،کہ جب ایک تحریک کے کارکن اتنی لمبی اور مشکل جدوجہد کے بعد بھی انصاف حاصل نہیں کر پائے یہاں تک کے ایک جے آئی ٹی کی رپورٹ کیلئے کئی مہینوں سے عدالت کے چکر کاٹ رہے ہیں تو ایک عام آدمی کہاں کھڑا ہے۔ انہیں اپنی آنیوالی نسلوں کا مستقبل تاریک ہوتا نظر آتا ہے۔ ان کو آنیوالے وقتوں میں ایک ایسا پاکستان نظر آ رہا ہے جس میں انکے بچے چند گھرانوں کے غلام ہونگے۔ اور وہ انکے جان مال اور عزت کے مالک ہونگے۔ عوام کی جان مال اور عزت کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جس پر آنکھوں پر پٹی باندھ کر پورا اترا جاتا ہے۔ اپنے پرائے کا فرق نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس میں تواپنوں کو صاف بچا لیا گیا ہے۔ اور نیچے کے عام دس سپاہیوں کو قربان کر دیا گیا ہے۔ قانون کو وہی لوگ ہاتھ میں لیتے ہیں جن کے پاس اس قانون سے بچ نکلنے کی طاقت ہوتی ہے ۔ پاکستان میں ہمیشہ حکومتیں عدلیہ سے سپریم اور پاور فل نظر آئیں ۔ جسکی بھی حکومت آئی اس نے اپنی مرضی سے احتساب کا چیئرمین لگوایا اپنے خلاف سارے مقدمات خارج کروائے اور اگلے الیکشن کیلئے دوبارہ سے فرشتے بن گئے۔
اب موجودہ حکمرانوں کیخلاف آخری مقدمہ بھی خارج کر دیا گیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاون میں جن پر الزمات تھے ان سب کو بیرون ملک فرار کروا دیا گیا۔ اور چند کو انھی وزارتوں کے تاج سے پھر نوازا جا رہا ہے۔ تمام اعلی افسران اس واقعہ سے لاعلمی کا بیان دے کر صاف بچ نکلے ہیں۔ توکیا لاعلمی چھوٹا جرم ہے ؟ خود کو عمر ثانی کہلوانے والے ذرا عمر فاروقؓ کی وہ پریشانی بھی دیکھیں کہ جس میں کہیں دور دراز مرنے والے جانور کی موت سے لاعلمی پر بھی خدا کی پکڑ کے خوف میں مبتلا ہیں ۔ اور یہاں رات کے دو بجے سے لے کر اگلے دن کی دوپہر آ جاتی ہے۔ سو لوگ گولیوں سے چھلنی اور چودہ قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ اول تو اخلاقی طور پر تمام اعلی افسران کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا لیکن وہ اس غیرت کا مظاہرہ کرنے کی جرات نہیں رکھتے تھے تو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اس غفلت اور لاعلمی پر ہی ان کو سزا دینی چاہیے تھی۔ غافل ہونا معمولی جرم نہیں۔ یہ لاعلمی اپنے فرائص سے کوتاہی کے زمرے میں آتی ہے ۔ قانون یہ حق رکھتا ہے کہ وہ ان فرائض سے غفلت پر حکمرانوں کو کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیں، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ تمام نامزد مجرم کمیشن کے فتوی کے مطابق فرشتے ہیں۔ دوسری طرف وہ جو لوگ پر تشدد کارروائیوں کے ذریعہ انصاف طلب کرتے ہیں، انہیں جلد انصاف ملتا ہے۔ انصاف حاصل کرنے کا کیا یہی طریقہ ہے اور جو انصاف قانون پر چھوڑ دیتے ہیں کیا وہ پر امن احتجاج اور ساری عمر دھرنے دیتے رہ جائیں؟ انصاف کی عدم فراہمی خود ایک دہشتگردی ہے۔ اس دہشتگردی سے ملک کو نجات کون دلوائے گا؟ وہ اندھا قانون جو اپنے پرائے میں فرق نہیں کرتا وہ کب اس ملک میں راج کریگا؟