لاہور+ سیالکوٹ (وقائع نگار خصوصی+اپنے نامہ نگار سے+ نامہ نگار) سانحہ ڈسکہ کے خلاف وکلاء کا عدالتی بائیکاٹ چوتھے روز بھی جاری رہا جس کی وجہ سے ہزاروں مقدمات کی سماعت نہ ہونے پر سائلین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وکلاء بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر فوری نوعیت کے مقدمات میں پیش ہوتے رہے۔ ڈسکہ بار کے سیکرٹری اویس اسلم سندھو نے پنجاب بار کونسل کے عہدیداروں کے ساتھ لاہور میں پریس کانفرنس میں صحافیوں کو واقعہ کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر پنجاب بار کونسل کی وائس چیئرمین فرح اعجاز نے واقعہ کو پولیس گردی قرار دیتے ہوئے ملزمان کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ وکیل رہنما علی ظفر نے کہا کہ ڈسکہ واقعہ سے ثابت ہو گیا کہ ملک کو پولیس سٹیٹ بنا دیا گیا ہے۔ پولیس نظام میں اصلاحات لانے اور سیاسی مداخلت ختم ہونے تک وکلاء اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب پنجاب بار کونسل کی وائس چئیرپرسن فرح اعجاز بیگ نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہا ہے کہ سانحہ ڈسکہ بار کے کچھ نام نہاد لیڈر میڈیا پر بیٹھ کر نعشوں پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں جو انہیں زیب نہیں دیتا یہی نام نہاد لیڈر نوجوان وکلاء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا بند کر دیں۔ 12مئی کو وکلاء سوگ کے دن کے طور پر مناتے ہیں لیکن پاکستان بار کونسل اسے سوگ کے دن کے طور پر کیوں نہیں مناتی۔ پنجاب بار کونسل اگر وزیر اعلیٰ سے با مقصد ملاقات کرتی ہے تو شور مچایا جاتا ہے لیکن اگر سپریم کورٹ بار جب ڈسکہ کا واقعہ پیش آیا تو وہ وزیراعلیٰ سے ملاقات کر رہی تھی تو انہیں اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جاتا۔ سی ایم سے ملاقات ڈسکہ بار اور شہید ہونے والے لواحقین کو اعتماد میں لے کر کی گئی تھی۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ ملزم ایس ایچ او کا چالان مکمل ہو گا اور اسے تختہ دار پر لٹکا کر ہی دم لیں گے۔ اس موقع پر چودھری عبدالسلام، سیکرٹری ڈسکہ بار اویس اسلم گھمن، ملک جمیل احمد، جلیل قیصر ناگرہ، ارکان پنجاب بار کونسل، جمیل اصغر بھٹی، ملک سرود، رانا انتظار حسین، منیر حسین بھٹی، چودھری شاہنواز، خالد بزدار، اختر حسین بھٹی، طاہر نصر اللہ وڑائچ، غلام مصطفی، چودھری نور حسن، عبدالصمد بسریا، ناصر جوئیہ، چودھری دائود، میاں فیض احمد، شیخ عبدالغفار، بشریٰ قمر سمیت وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ بار نے تین روز ہڑتال کا اعلان کیا تھا پاکستان بار کونسل نے ایک دن بعد ہی کیوں وہ کال واپس لے لی۔ اگر ڈسکہ بار اور لواحقین کی ڈیمانڈ پر ان کے مطالبات کو منوانا جرم ہے تو یہ جرم پنجاب بار کونسل اور اس کے ممبران بار بار کریں گے۔ حکومت نے وکلاء کیخلاف تمام ایف آئی آرز ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور آئی جی کو اس قسم کی تمام تر کارروائیوں سے باز رہنے کا بھی حکم دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور عدلیہ اس سانحہ پر ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ لاہور بار میری بار ہے وہاں کے وکلاء میرے بھائی بہن ہیں انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے میں بہت جلد ان کو صورت حال سے آگاہ کروں گی۔ دوسری جانب سیالکوٹ بار نے سانحہ ڈسکہ میں جاں بحق وکلاء کے مقدمہ کی پیروی کیلئے 5 رکنی کمیٹی بنا دی ہے جس میں صدر ڈسٹرکٹ بار خواجہ اویس مشتاق، سعید احمد بھلی، شاہد میر، لیاقت علی بنیامین اور میں شکیل ایڈووکیٹس شامل ہیں۔ سیالکوٹ میں وکلاء نے گذشتہ روز بھی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔