کہیں سارا نقشہ ہی نہ بدل جائے!

May 30, 2016

نازیہ مصطفٰی

تقسیم ہندوستان کے بعد بھارت کے گزشتہ سات دہائیوں سے ہی اپنے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ چھوٹے بڑے سرحدی تنازعات چلے آرہے ہیں، جن میں دو بڑے تنازعات پاکستان اور چین کے ساتھ ہیں۔ پاکستان کے خلاف چار جنگیں لڑنے کے باوجود بھی بھارت جموں کشمیر پر اپنا حق اور عالمی سطح پر اپنا موقف درست ثابت نہیں کرسکا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے، اس کے برعکس کشمیر میں بھارت سے آزادی کیلئے پہلے مسلح جدوجہد جاری رہی اور اب بھرپور انداز میں ’’کشمیری انتفادہ‘‘ جاری ہے، دوسری جانب ارونا چل پردیش کے بڑے حصے ’’اکسائی چن‘‘ پر بھارت کا دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت چین کے ساتھ بھی تنازع ہے۔ جس طرح کشمیری بھارت کو غاصب سمجھتے ہیں، اسی طرح اروناچل پردیش کے لوگ بھی بھارت کی بجائے چین کو اپنا اصل اور حقیقی ملک گردانتے ہیں۔ کشمیری دنیا میں جہاں جہاں موجود ہیں، وہاں وہ ناصرف مسئلہ کشمیر پر اپنی آواز اور اپنا موقف پہنچارہے ہیں بلکہ نقشوں میں کشمیر کو بھارت سے الگ اور پاکستان میں شامل بتاتے بھی ہیں اور ظاہر بھی کرتے ہیں۔ دوسری جانب ارونا چل پردیش کے لوگ بھی دنیا بھر میں جہاں جہاں کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں پھیلے ہوئے ہیں، وہاں وہ اپنی دھرتی اروناچل پردیش کو بھارت سے الگ چین میں یا پھر ایک آزاد ریاست کے طور پر دکھاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر کشمیر اور اروناچل پردیش کے اصل نقشے اس کثرت کے ساتھ دستیاب ہیں کہ دس میں سے نو نقشے کشمیر اور اروناچل پردیش کو بھارت سے الگ ہی ظاہر کرتے ہیںلیکن حقیقت آخر حقیقت ہوتی ہے ، یہ زیادہ دیر تر چھپی نہیں رہ سکتی۔ خود بھارتی حکومت کی بدحواسیاں اس وقت دیکھنے والی تھیں جب چینی وزیراعظم کے دورہ بھارت میں مختلف معاہدوں کے دوران جو نقشے پیش کیے گئے، اُن میں اروناچل پردیش کو چین میں شامل دکھایا گیا، جس پر بھارتی اپوزیشن نے مودی سرکار کو خوب آڑھے ہاتھوں لیا۔اس سے پہلے انٹرنیٹ کے آنے کے بعد عالمی میڈیا میں ضرورت کے تحت جب بھارت کے نقشوں کو استعمال کیا جانے لگا تو زیادہ تر یہی نقشے عالمی میڈیا کی زینت بنے، جس کی وجہ سے بھارت کو دنیا میں ناصرف سبکی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ دونوں مذکورہ علاقوں پر بھارت کے قبضے کا موقف بھی کمزور ہوا۔ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے بھارت کی جانب سے جو پہلی چال چلی گئی وہ یہ تھی کہ انٹرنیٹ پر کشمیر اور ارونا چل پردیش کے ایسے جعلی نقشے پھیلانے کی کوشش کی گئی، جس میں ’’کاؤنٹر اٹیک‘‘ کے طور پر پاکستان اور چین کے مستند علاقوں کو بھی ان دونوں ملکوں سے الگ کرکے بھارت میں شامل دکھایا گیا۔ مثال کے طور پر توانائی کے منصوبے کی افتتاحی تقریب میں’’کاسا 1000‘‘ کے ’’لوگو‘‘ میں دکھائے جانے والے نقشے سمیت اگر بھارت کی یہ سازش کہیں تھوڑی بہت کامیاب ہوئی بھی تو پاکستان اور چین کی نشاندہی پر متعلقہ اداروں اور متعلقہ ممالک کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے باقاعدہ اپنی غلطی کی معافی بھی مانگی، لیکن اس کے برعکس ایسے نقشے دنیا میں کثرت سے استعمال میں ہیں، جن میں بھارت کا دامن کشمیر ، ارونا چل پردیش اور دیگر متنازع علاقوں سے خالی دکھایا جاتا ہے۔مثال کے طور پر بھارتی وزیراعظم کے دورہ چین میں جو نقشے دکھائے گئے، اُن میں بھارت میں کشمیر اور ’’اکسائی چن‘‘ کے علاقے شامل نہ تھے،اسی طرح الجزیرہ ٹیلی ویژن نے ایسا ہی ایک نقشہ گزشتہ برس اپریل میں دکھایا تو بھارتی حکومت نے اس ’’جرم‘‘ کی پاداش میں الجزیرہ ٹی وی چینل کی نشریات پانچ دن کے لیے بند کردیں۔ بھارتی موقف کے برعکس حقیقی نقشے صرف انٹرنیٹ کی مخصوص ویب سائیٹس پر ہی عام نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی یہی نقشے استعمال کیے جارہے ہیں اور حد تو یہ ہے خود بھارت کے اپنے شہری سوشل میڈیا پر یہی نقشے پوسٹ کرتے ہیںجن میں کشمیر اور اروناچل پردیش بھارت میں شامل نہیں ہوتے۔ انٹرنیٹ پر جعلی نقشے پھیلانے میں ناکامی کے بعد اب بھارتی حکومت ’’دی جیواسپیشل انفارمیشن ریگولیشن بل 2016‘‘ کے نام سے ایک ایسا قانون بنانے کی تیاری میں ہے، جس کے مطابق کشمیر سمیت بھارت کے دیگر متنازع علاقوں کو اگر بھارت کی سرزمین سے الگ دکھایا گیا تو سات سال تک کی قید اورایک ارب روپے تک کا جرمانہ ہو سکے گا۔ اس بل کے مطابق بھارت کی کسی بھی جگہ کی خلا سے تصویر یا معلومات حاصل کرنے، اسے نشر کرنے اور اسے تقسیم کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت حاصل کرنا لازمی ہوگا۔ بھارت کے اس قانون پر پاکستان نے بجا طور پر اعتراض کرتے ہوئے کشمیر کو غلط انداز میں دکھانے پر اقوام متحدہ سے رجوع کیا ہے۔ اقوام متحدہ کو لکھے جانے والے ایک خط میں پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کے سرکاری نقشے میں متنازع جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ ظاہر کیا جا رہا ہے جوکہ حقائق کے منافی اور قانون کے خلاف ہے اور یہ کہ اقوام متحدہ بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت ایسے اقدامات سے باز رکھے جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ ایک طرف خطے کے حقیقی نقشوں سے بھارتی حکومت خوفزدہ ہے تو دوسری جانب پاکستان میں بعض سیاسی جماعتیں بھی پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان سمیت پورے خطے کا مقدر اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی تبدیل ہوتا نقشہ دیکھنے سے دہشت زدہ ہیں۔ یہی وجہ کہ آئے روز اُن سیاسی جماعتوں کے ٹکڑوں پر پلنے والے لکھاری، نام نہاد دانشور اور اینکرپرسن سی پیک منصوبے کے نقشے کے حوالے سے کوئی نہ کوئی متنازعہ ایشو کھڑا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی مغربی روٹ کا معاملہ اٹھادیا جاتا ہے تو کبھی روٹ کے مشرقی طرف زیادہ ترقیاتی کاموں کا منفی پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اقتصادی راہداری کو متنازعہ بناکر تاخیر کا شکار کردیا جائے تاکہ حب الوطنی کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے غیر ملکی آقاؤں کو پاکستان میں اپنا ایجنڈا نافذ کرنے کا موقع مل سکے۔ قارئین کرام!!بھارت کے مجوزہ قانون کی تشریح اتنی وسیع ہے کہ اس کی زد میں دنیا بھر میں چھپنے والے نقشے، ورلڈ اٹلس اور بیرون ملک سے بھارت آنے والے عالمی میگزین بھی آ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مجوزہ جیواسپیشل ریگولیشن بل کو بھارت کے اندر بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے، بھارت کا یہ سیاہ قانون انٹرنیٹ کی عالمی کمپنیوں گوگل، ایپل اور اوبر کے ڈیجیٹل نقشوں کو بھی متاثر کرے گا، یوں امید ہے کہ بھارت کی جانب سے اِس اوچھی حرکت کے ساتھ تو انٹرنیٹ کی عالمی کمپنیاں ہی نمٹ لیں گی، لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت کی مخالفت کی آڑ میں ملک دشمنی پر اترآنے والے سیاستدانوں اور دانشوروں کے ساتھ کون نمٹے گا جو چند ڈالروں کے عوض پاکستان، پاکستانیت اور خطے کی ترقی کے سب سے بڑے پراجیکٹ پاک چین اقتصادی راہداری کے نقشوں کو متنازع بنانے کی سازش میں لگے ہوئے ہیں؟ اگر یہ لوگ اپنی حرکتوں کے باز نہ آئے تو ممکن ہے کہ قدرت اُن کی چالیں، اُنہی پر اُلٹ دے۔ ایسے ملک دشمن عناصر اصل اور حقیقی نقشوں کو متنازع بنانے سے باز نہ آئے تو خدشہ ہے کہ قدرت کے ہاتھوں خطے میں کہیں سارا نقشہ ہی نہ بدل جائے!

مزیدخبریں