ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں تو یہی مسیحائی ہے

کرپشن، بیڈ گورننس اور اقرباء پروری کے خاتمے کیلئے ہم میں سے کسی کو آگے آنا ہو گا، چیف جسٹس پاکستان

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ بیڈ گورننس‘ کرپشن‘ اور اقرباپروری کے خاتمے کیلئے آسمان سے کوئی فرشتہ نہیں آئیگا‘ ہم میں سے ہی کسی کو آگے آنا ہو گا‘ ہم اپنا قبلہ درست کرلیں تو اپنے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ 30 سال ڈنڈے کے زور پر حکومت کی گئی‘ بدقسمتی سے وہ لیڈر شپ نہیں ملی جو قوموں کو ترقی کی منازل پر پہنچا دیتی ہے۔ اپنے ذاتی مقاصد کیلئے ضرورت سے زیادہ قانون سازی کی گئی ہے۔ اینٹی کرپشن‘ ایف آئی اے‘ نیب کا قانون بنایا گیا‘ کوئی ایک ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوا‘ کسی نااہل شخص کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے تو ایک بڑی لابی اس کا تحفظ کرنے آجاتی ہے۔ دنیا میں پاکستانی اور مسلمان ہونا جرم سمجھا جارہا ہے، اس کی وجہ ہمارے اندر موجود خامیاں ہیں، ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک ترقی یافتہ ہوچکے ہیں۔ لاڑکانہ ڈسٹرکٹ بار سے کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آج ملک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار ہے جس کے حل میں مدد کرنے کیلئے کوئی مسیحا باہر سے نہیں آئیگا، ہمیں بحیثیت قوم اتحاد کی ضرورت ہے لیکن اسکے برعکس ہم صوبائیت اور لسانیت میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں قومی یکجہتی کی کمی ہے، ہم نے اپنی خرابیوں کو درست کرلیا تو ہماری آنے والی نسلیں اقوام عالم میں سر اٹھا کر چل سکیں گی‘ ہمارے اندر خامیاں موجود ہیں‘ جب تک قابو نہیں پائیں گے مسائل اسی طرح چلتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عدالتی نظام مطلوبہ معیار کے مطابق نہیں ہے جس کا ذمہ دار کسی فرد واحد کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ججز کو دوراندیش، دیانتدار اور خوش اخلاق ہونا چاہئے لیکن اکثریت میں ان چیزوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ملک میں رائج نظام تعلیم بھی ایک وجہ ہے جس سے قانون کے شعبے میں آنے والے اتنی قابلیت نہیں رکھتے۔
ریاستی اداروں اور ان کو چلانے والی شخصیات کے اندر پائی جانیوالی خامیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی صرف چیف جسٹس پاکستان ہی نہیں کرتے۔ صدر پاکستان ممنون حسین، آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور نیب کے سابق اور موجودہ سربراہ بھی کرتے رہے ہیں۔ بیڈ گورننس، اقرباء پروری اور کرپشن جیسی خرافات اب کوئی راز نہیں رہیں۔ ان سے ہر باشعور پاکستانی آگاہ ہے مگر ان کے خاتمے میں ہر کوئی بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ جو ایسے کارناموں میں ملوث ہیں وہ ڈھٹائی سے خود کو صاحب کردار ظاہر کرتے ہوئے دوسروں کے سر الزام تھوپتے نظر آتے ہیں۔ یوں عام آدمی کیلئے غلط اور صحیح، سچ اور جھوٹ میں تمیز مشکل ہوگئی ہے۔ انتخابات میں عوامی رائے کو گمراہ کر کے ووٹ حاصل کئے جاتے ہیں۔ تعلیم کے فقدان کے باعث عام آدمی بڑے لیڈروں کے نعروں اور گمراہ کن جھوٹے دعوئوں کے جھانسے میں آ کر اپنے لئے مسائل خود پیدا کر لیتا ہے۔ لیڈر بھی عموماً واجبی تعلیم کے حامل ہیں۔ اکثر کا مقصد حیات کسی بھی طریقے سے اقتدار کا حصول اور وسائل پر تسلط ہوتا ہے۔ بیورو کریٹس گو تعلیم یافتہ ہیں مگر ان میں سے بھی بہت کم بامقصد تعلیم سے سرفراز ہوئے ہونگے۔ چیف جسٹس کو شکوہ ہے کہ ملک میں رائج نظام تعلیم کی وجہ سے قانون کے شعبے میں آنے والے مطلوبہ قابلیت نہیں رکھتے۔ بامقصد تعلیم انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ اس میں انسانیت کو اولیت حاصل ہے۔ کیا ہمارے اداروں کے بااختیار لوگوں کے رویے انسانیت سے معمور ہیں۔ اگر ایسا ہو تو لامتناہی وسائل کا حامل ملک پاکستان جنت نظیر نظر آئے مگر بدقسمتی سے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جس کی نشاندہی اب چیف جسٹس نے کی ہے جو کسی طور پر انکشاف نہیں ہے۔ جس کا کوئی فرد واحد بھی ذمہ دار نہیں ہے اگر ذمہ داری کا تعین کیا جائے تو ہر وہ فرد اس کا ذمہ دار ہے جس کے ذمے ریاستی فرائض ہیں۔
30 سال ڈنڈے کے زور پر حکومت کرنیوالوں کو ایسے اقدام پر اکسانے اور بعدازاں ان کا ساتھ دینے والے سیاستدان ہی تھے۔ بیورو کریٹس اپنی مراعات سے دستکش ہونے کو تیار نہ تھے۔ جج حضرات کو بھی نوکریوں کی فکر تھی۔ ایوب خاں کے اقتدار پر قبضے پر بیورو کریٹس، عدلیہ اور سیاستدانوں نے اصولی موقف اختیار کیا ہوتا تو ایوب خان ایک دن میں اقتدار میں نہیں رہ سکتے تھے۔ ایوب خان نے دس سال ساتھی جرنیلوں، سیاستدانوں، بیورو کریسی اور عدلیہ کے تعاون سے حکومت کی۔ ایوب کی آمریت سے یحییٰ خان نے حوصلہ پکڑا۔ بعدازاں جنرل ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو بھی کُھل کھیلنے کا موقع ملا۔ ان کے ساتھ اکثر سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور ججوں نے کندھے سے کندھا ملایا اور آج ایک بار پھر جمہوریت کے گرد خطرات منڈلا رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو بہترین آئین دیا مگر انہوں نے اس کے اطلاق کے فوری بعد اس میں ترامیم کا سلسلہ شروع کر دیا جو آج تک ہمارے سیاستدان یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے آئین کی ہیئت تبدیل ہو چکی ہے۔ آئین کو آمروں اور سیاستدانوں نے یکساں طور پر اپنے مفادات کیلئے طاقت اور اکثریت کے بل بوتے پر موم کی ناک بنائے رکھا۔ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک کی لیڈر شپ میں نیشنلزم کا مادہ اور ترقی کے لئے کمٹمنٹ تھی۔ ہمارے ہاں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کی لیڈر شپ میں دونوں کا فقدان رہا۔ سیاست میں ایک طرف سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی تک بڑھا دیا جاتا ہے دوسری طرف تنخواہوں، مراعات اور اختیارات میں اضافے کیلئے پارلیمنٹرین ایک ہی صف میں پیار و محبت سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے ’’باشعور‘‘ ہونے کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی کہ 18 ویں ترمیم میں ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کا حق بھی پارٹی لیڈر کو دیدیا گیا۔ ہمارے فاضل پارلمنٹرین نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کو جمہوریت کے قتل کا ہتھیار 58 ٹو بی کی صورت میں ان کے حوالے کر دیا تھا اور سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات نے دونوں جرنیلوں کے ’’کو‘‘ کو جائز قرار دیا اور اپنے طور پر ان کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی تفویض فرما دیا۔
آمریت کی شروع دن سے بیخ کنی کی گئی ہوتی تو قوم کے 33 سال ضائع نہ ہوتے، جمہوریت کا پودا بھی تناور درخت بن چکا ہوتا۔ جمہوریت کو طالع آزما جرنیلوں نے بڑے دھچکے دئیے مگر ہمارے سیاستدانوں نے آمریت کے دروازے بند کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ عوام میں پذیرائی حاصل نہ کرنیوالے کئی سیاستدان چور دروازے سے اقتدار میں آنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ فوج کی حکمرانی میں ان کو یہ موقع آسانی سے میسر آ جاتا ہے۔ یہ موقع بھی مقتدر سیاستدان اپنے عاقبت نا اندیشانہ رویوں اور پالیسیوں کے ذریعے فراہم کر دیتے ہیں۔ آج پانامہ لیکس کا ایشو اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ 630 افراد کے نام پانامہ لیکس میں ہیں۔ جن میں مسلم لیگ ن کے سربراہ اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بچوں، عمران خان اور ان کی پارٹیوں کے کئی رہنمائوں سمیت دیگر پارٹیوں کے لوگوں کے نام بھی شامل ہیں۔ ہر کہیں سے احتساب کی آواز اٹھ رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی زور دار طریقے سے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے احتساب کی بات کرتی تھی۔ اب ان کے مطالبے میں اپنے لوگوں کے نام آنے کے بعد پہلے والا دم خم نہیں ہے۔ ٹی آو آرز کیلئے قائم کمیٹی میں حکومتی ہاکس کو شامل کیا گیا ہے۔ اپوزیشن میں شامل ایک دو ممبر بھی حکومت کی نمائندگی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔ پانامہ لیکس کے بعد احتساب کی ایک امید پیدا ہوئی تھی جو اب معدوم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ حکومت اس باب کو بند کرنے کیلئے کوشاں ہے اپوزیشن کا رویہ بھی ’’مٹی پائو‘‘ والا ہو رہا ہے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے یہ کہہ کر حکومتی صفوں میں کھلبلی مچا دی تھی کہ پانامہ لیکس کا معاملہ قدرت کی طرف سے اٹھا ہے۔ بدعنوانی نے ملکی ترقی روک دی، اب بدعنوان لوگ پکڑ میں آنے والے ہیں۔ مگر اب بدعنوان لوگوں کے احتساب کی امید نقش بر آب ثابت ہو رہی ہے۔
قومیں تعلیم و شعور سے تشکیل پاتی ہیں، آئین و قانون کی پابندی، اخلاقیات و اصولوں پر کاربند ہونے اور اہل، مخلص اور کمٹڈ لیڈر شپ سے مضبوط ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اب تک تو ان سب کا فقدان رہا ہے۔ قوم کی رہنمائی کیلئے مسیحا آسمان سے نہیں اترے گا۔ ایسا کسی کو انتظار بھی نہیں ہے۔ ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کریں تو یہی ان کی طرف سے مسیحائی کے فریضے کی ادائیگی ہو گی، بسم اللہ چیف جسٹس اپنے ادارے سے کریں۔ آپ نے حکومتی ٹی او آرز سے اتفاق نہیں فرمایا جبکہ وزیراعظم کہتے تھے کہ چیف جسٹس ان ٹی او آرز میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ پانامہ لیکس اپریل کے شروع میں سامنے آئیں۔ عدالت عظمی کی طرف سے اسی وقت سؤ موٹو لیا گیا ہوتا تو پانامہ لیکس کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچ چکا ہوتا اور بیرون ممالک میں لوٹ مار کے اور ٹیکس بچانے کیلئے پڑے کھربوں ڈالر پاکستان میں واپس آنے کی طرف پیشرفت ہو چکی ہوتی۔ عدلیہ کے پاس قوم کی مسیحائی کے کسی بھی دوسرے ادارے کی نسبت زیادہ مواقع اور اختیارات ہیں۔ اصل میں تو یہ کام پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے مگر اس سے معروضی حالات میں اس کی توقع عبث ہے۔ ہمارے ہاں تمام برائیوں کی ماں کرپشن ہے۔ اسی سے انصاف کی راہیں مسدود ہوتی ہیں، اسی سے میرٹ کا جنازہ نکلتا اور اسی سے اقربا پروری کا کینسر معاشرے میں سرایت کر رہا ہے۔ ان حالات میں عدلیہ کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...