ڈاکٹر عبدالقدیرخان ۔ ’زندہ در گور‘‘ قومی ہیرو

18ویں یوم تکبیر پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بڑے دکھی لہجے میں کہا ’’ پچھلے کئی سال سے مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں میں زندہ درگور ہوں اپنی مرضی سے کہیں جا سکتا ہوں اور نہ ہی کسی سے ملنے کی اجازت ہے حفاظتی تحویل کے نام پر قیدی کی طرح زندگی بسر کر رہا ہوں قید تنہائی میں قلم کتاب کو اپنا ساتھی بنا لیا ہے‘‘۔’’80سالہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 40سال قبل پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا عزم لے کر ہالینڈ سے اسلام آباد آیا تو مشکل حالات کام کا آغاز کیا ۔انہوں نے پاکستان کو دنیا کا ساتواںایٹمی ملک بنانے کے لئے ہالینڈ کی پر آسائش زندگی زندگی ترک کرکے چند ہزار روپے کی نوکری قبول کر لی لیکن مختصر مدت میں پاکستان کو ’ ایٹمی قوت ‘‘ بنا دیا 1984ء میں ’’کولڈ ٹیسٹ ‘‘ کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی تصدیق ہو گئی تھی لیکن چاغی کے پہاڑوں میں تیار کی گئی سرنگ کے باوجود عالمی دبائو نے جنرل ضیاالحق کو ایٹمی دھماکہ کرنے دیا اور نہ ہی ان کے بعد کسی حکمران کو ایٹمی قوت بننے کا اعلان کرنے کی جرات ہوئی جب بھارت نے مئی 1998 ء میں 5ایٹمی دھماکے کرکے پوری دنیا کو یہ باور کرا دیا کہ وہ ایٹمی قوت بن گیا ہے تو یہ وزیر اعظم محمد نواز شریف ہی تھے جنہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی 5ٹیلی فون کالز کی پروا کئے بغیر بھارت کے 5ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 6دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر دیا ۔ 18سال قبل کی بات ہے 27مئی1998ء کو ڈاکٹر فاروق کا فون آیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یاد کر رہے ہیں میری ڈاکٹر خان سے 1985ء سے یاد اللہ ہے جب انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا تھا کیپٹن صدیق ان کا پیغام لے کر آئے تھے اور پھر اس وقت کے نوائے وقت راولپنڈی اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر طارق وارثی نے ان کا پہلا انٹرویو کیا جب کہ میں نے ان کے اعزاز میں راولپنڈی پریس کلب میں تاریخی تقریب کا اہتمام کیا جس میں انہیں ’’ گولڈ میڈل ‘‘دیا گیا ۔ جب میں اور دفاعی رپورٹر سہیل عبد الناصر ڈاکٹر خان کے دفتر پہنچے تو ان کو انتہائی مضطرب پایا ۔ان کے اضطراب کی ایک وجہ یہ تھی کہ 28مئی1998ء کی سہ پہر چاغی کے پہاڑ میں ایٹمی دھماکہ سے ان کو دور رکھنے کی سازش کی گئی تھی اس طرح پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کو کریڈٹ سے محروم رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھیْ۔ ہماری موجودگی میں ہی کوئٹہ جانے کے لئے جہاز کی فراہمی کا پیغام آگیا ، جہاز کا بندوبست ہونے پر ان کا چہرہ تو کھل اٹھاانہوں نے ہماری’’ پکوڑوں‘‘ سے تواضع کی انہوں جہاں یہ بتایا کہ 28مئی1998ء کو ساڑھے تین بجے پاکستان ایٹمی دھماکہ کرے گا وہاں بھارت کی جانب سے ممکنہ جارحیت کے خدشے کے پیش نظر ایٹمی میزائلوں سے لیس میزائل پاکستان کی سرحدوں پر نصب کرنے کی خبر دی ہم نے مصلحتاً ایٹمی دھماکے کے وقت کو تو شائع نہیں کیا لیکن نوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلے جہاں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کی خبر دی تھی وہاں پاکستان کے ایٹمی دھماکہ کرنے کی خبر بھی نوائے وقت نے دی ۔روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی نے ایٹمی دھماکے کرنے کے لئے جہاں میاں نواز شریف کا حوصلہ بڑھایا وہاں انہوں نے انتباہ بھی کیا کہ اگر انہوں نے دھماکہ نہ کیا توعوام ان کا دھماکہ کر دیں گے سو انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے بیرونی دبائو کی پروا کئے بغیر ایٹمی دھماکے کر دئیے ۔ہل سائیڈ روڈ پر ڈاکٹر عبد القدیر خان کی رہائش گاہ نے پچھلے کئی سال سے ایک ’’غیر اعلانیہ ‘‘ زندان کی شکل اختیار کر لی ہے جس میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان سیکیورٹی کے نام پر ’’قید ‘‘ ہیں گو کہ عدلیہ کے حکم پر ڈاکٹر عبد القدیر خان پاکستان کی آزاد شہری کی حیثیت سے نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں لیکن ایسی بھی آزادی نہیں کہ وہ جہاں جانا چاہیں جا سکتے ہوں البتہ جب وہ کبھی ’’زندان‘‘ سے باہر کھلی فضا میں سانس لینا چا ہیں تو کلیئرنس درکار ہوتی ہے80سالہ ڈاکٹر عبد القدیر خان نے1976ء کے بعد سے شاید ہی کوئی دن ’’آزاد شہری‘‘ کے طور پر گذارا ہو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی انہوں پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے جس کام کی بنیاد رکھی تھی اس کا تقاضا بھی تھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو دنیا کی’’ نظروں ‘‘ سے اوجھل رکھا جائے لیکن اب ان کو کے آر ایل سے ریٹائر ہوئے کئی سال ہو گئے ہیں لیکن اس کے باوجود ’’حفاظتی تحویل ‘‘ میں ہیں انہوں نے بڑے دکھ سے بتایا کہ این ای ڈی یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کا اعزاز دینے کا فیصلہ کیا لیکن حکومت نے یونیورسٹی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے سے روک دیا انہوں اس بات کا بھی گلہ کیا کہ ان کے احباب کو بھی ان سے ملاقات کے لئے کئی پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں جو احباب کھانے پر مدعو کرتے ہیں میں ہی ان کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کر لیتا ہوں بعض اوقات وہ اپنے گھر سے کھانا تیار کر کے لے آتے ہیں ۔ڈاکٹر خان سوچتے ہیں یہ کیسی زندگی ہے ؟وہ کہتے ہیں کہ ان کو ’’زندہ در گور‘‘ کر دیا گیا ہے وہ کہتے ہیں عمر کا بہت بڑا حصہ گزار دیا ہے باقی بھی گزر جائے گا جب چار عشرے قبل مغرب کو ہمارے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ’’ سن گن‘‘ ہوئی تو بی بی سی کا نمائندہ ڈاکٹر خان تک پہنچنے اور کہوٹہ پلانٹ کا سراغ لگانے کی کوشش میں اپنی درگت بنوا بیٹھا جب کہ فرانسیسی سفیر کہوٹہ جانے کے’’ شوق‘‘ میں اپنے دانت تڑوا بیٹھے پھر کسی نے کہوٹہ کا رخ نہ کیا جب پاکستان نے بھارت کے ’’جارحانہ عزائم‘‘ کو بھانپ لیا تو روزنامہ مسلم کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید کے ذریعے بھارتی صحافی کلدیپ نیر کی ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ملاقات کرائی گئی جن کو ڈاکٹر خان نے باور کرادیا کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستان اپنی سلامتی کے لئے ایٹم بم پھینک کر بھارت کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے لہذا بھارت کو 1971ء کی جارحیت کا اعادہ نہیں کرنا چاہیے کہا جاتا ہے کہ جب بھارتی حکمرانوں تک ڈاکٹر خان کا پیغام پہنچا تو ان پر کپکی طاری ہو گئی ،اسی طرح کا پیغام دینے کے لئے جب جنرل ضیاالحق نئی دہلی پہنچے تو انہوں نے باتوں باتوں میں بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو باور کرا دیا کہ ہمارے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے ورنہ ہمارے پاس بھی’’ چھوٹا سا ہتھیار‘‘ موجود ہے جو پورے خطے کو دنیا کے نقشے سے مٹا سکتا ہے، اس کے بعد بھارت نے اپنی افواج کو پاکستان کی سرحدوں سے ہٹا لیا میرا ڈاکٹر عبد القدیر خان سے ٹیلی فون پر رابطہ رہتا ہے وہ ہر روز ایس ایم ایس وقت کے ذریعے بھی یاد رکھتے ہیں ڈاکٹر عبد القدیر خان تک عام آدمی کی رسائی ممکن نہیں لیکن بندروں کوان تک پہنچنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہر روز سینکڑوں بندر مارگلہ کے پہاڑوں سے اتر کر ڈاکٹر عبد القدیر خان کو سلام پیش کرنے کیلئے ’’زنداں ‘‘ میں آتے ہیں کچھ تو ادھر ہی ڈیرے ڈال لیتے ہیں ڈاکٹر خان نے بھی بندروں’’ کی سواگت‘‘ کا معقول بند وبست کر رکھا ہوتا مونگ پھلی سے سیب تک سے ان کی تواضع کی جاتی ہے ’’قید تنہائی‘‘ میں یہی بندر کتے اور بلیاں ان کے دوست ہیں میں جب بھی ڈاکٹر خان کے ہاں گیا تو جہاں سیکورٹی اہلکار موجود ہوتے وہاں بندر بھی ڈاکٹر خان کے ’’مہمان ‘‘کا استقبال کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں مسلسل نظر بندی نے ڈاکٹر خان کی طبیعت میں چڑچڑاپن آگیا ہے وہ حکومتی طرز عمل سے ’’نالاں‘‘ نظر آتے ہیں اس لئے جب سیاست کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو ان ایسا دکھائی دیتا ہے ان کی نظروں میں کوئی جچا ہی نہیں جب ان سے ٹیلی فون پر بات ہو تو وہ پاکستان کے ایٹمی پرو گرام پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کہتے ہیں’’ ہم نے جو کرنا تھا کر دیا اس کا مجھے تو یہ صلہ دیاگیا کہ جنرل پرویز مشرف نے جبر کے ذریعے ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرایا میں نے پاکستان کے لئے وہ جرائم بھی قبول کر لئے جن کے ارتکاب کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا مکافات عمل ہے مجھے ’’زندہ در گور‘‘کرنے والا شخص آج در بدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے ڈاکٹر خان کی ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو کو ضبط تحریر نہیں لایا جا سکتا وہ ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں سابق صدر غلام اسحق ٰ کے معترف ہیں ان کا کہنا ہے اگر غلام اسحقٰ خان اس پروگرام سے وابستہ نہ ہوتے اور اس اہم ترین منصوبے کے لئے مطلوبہ فنڈز فراہم نہ کرتے تو پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں بنتا سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یو رینیم افزودہ کرنے کا پروگرام شروع کیا گیا جسے جنرل ضیاالحق کے دور میں کامیابی سے ہمکنار کیا گیا جب کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا باضابطہ اعلان کر دیا گیا ۔ 28مئی 1998ء ہماری قومی تاریخ کا ایک یادگار دن کی حیثیت رکھتا ہے ایٹمی دھماکے کرنے والا وزیر اعظم محمد نواز شریف ’’اوپن ہارٹ سرجری‘‘ کی وجہ سے لندن میں زیر علاج ہے اب کی بار پاکستان مسلم لیگ(ن) جوش وخروش سے یوم تکبیر کو قومی دن کے طور پر منایا گیا اسلام آباد میں ’’چاغی پہاڑ‘‘ کے ماڈل پر سرکاری طور پر چراغاں کیا گیا ہم جہاں پوری قوم ایٹمی پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہے وہاں ڈکٹر خان کو بھی’ ’قید تنہائی ‘‘ سے آزاد کرنے کا وقت آگیا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن