”ہماری خوشحالی کا اصل عکس“

بجٹ کی آمد سے قبل ہی مہنگائی میں”ہو شربا“ اضافہ ہو گیا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاءسے لیکر ضروریات زندگی کی دیگر اشیاءسمیت ہر چیز غریب آدمی کی پہنچ سے”باہر“ ہے۔ رمضان المبارک کی آمدسے قبل ہی مہنگائی کاسیلاب ”امڈ“آیاہے۔اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ آلو، چینی، دالیں، چاول،پھل،کھجوریں،اور دیگر اشیاءضروریہ کی قیمتوںمیں”جان لیوا“اضافے سے غریب عوام کی زندگی”اجیرن“ ہوچکی ہے۔دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں مذہبی تہواروں پر عوام کوریلیف فراہم کیاجاتا ہے مگر پاکستان میں ناجائزمنافع خوراورذخیرہ اندوز ان مواقع سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔بجٹ 2013-14ءپستی ہوئی عوام کے لئے مہنگائی کا سیلاب لے کر منظر عام پر آیا اور سارے مسائل کا”سہرا“ سابقہ حکومتوں کے ”سر“ ڈالا گیا، باقی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی مستقبل کے روشن خواب دکھا کر عوام کو مہنگائی کے بوجھ تلے ڈبو دیا، اور عوام کواگلے بجٹ میں ریلیف دینے کا کہ کر”کڑوا“ گھونٹ پینے کا مشورہ دیا گیالیکن 2014-15کے بجٹ میں پھر لفظوں کے ہیر پھیر سے عوام کو”بہلایا“ گیا۔ مہنگائی کی قیمتوں میں پچھلے 3 سالوں میں ہی حد درجہ اضافہ ہو چکا ہے، مگر حکومت نے اب بھی اشیاءخوردونوش کی قیمتوں کے اضافے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، پیٹرول، چینی، گھی کی قیمتوں میں بے تحاشہ حد تک اضافہ کر دیا گیا اور دودھ پر بھی 17% GST لگا دیا گیا، پاکستان کے شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اشیاءخورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ مئی کے پہلے دو ہفتے کے دوران آلو، کیلا، گڑ، چینی، دال مونگ، دال مسور، دال چنا اور چاول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ مہنگائی پر قابو پانے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی پارٹیاں بھی غریبوں کا خون چوسنے کی پالیسیوں سے”گریز“ نہیں کرتیں۔ شماریات بیورو نے رمضان المبارک سے قبل مہنگائی کے امڈ آنے والے سیلاب سے حکومت کو قبل از وقت آگاہ کر دیاہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروںکا ”محاسبہ“ کرنے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ رمضان المبارک اور بجٹ سے قبل اشیاءخورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی عدم توجہی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومت جب تک ناجائز منافع خوروں کے خلاف ٹھوس اقدام نہیں کرتی، مہنگائی کے سیلاب کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں۔ حکومت رمضان المبارک سے قبل رمضان ریلیف پیکج اور سستے رمضان بازار لگانے کا اعلان کر کے مطمئن ہو جاتی ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے تھے لیکن حکومت نے لوڈشیڈنگ کم کرنے کی بجائے پن بجلی 1.25 روپے یونٹ مہنگی کر دی ہے اس کے ساتھ ہی اشرافیہ کے لیے ایک اور خبر ہے کہ ‘ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 3.95 روپے سستی کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اطلاق کے الیکٹرک کے علاوہ ملک بھر کی تمام تقسیم کار کمپنیوں پر ہوگا جبکہ تین سو سے کم ماہانہ یونٹ استعمال کرنے والے گھریلو صارفین پر بھی اطلاق نہیں ہوگا۔ بجلی مہنگی ہونے سے عوام پر 40 ارپ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ بجٹ سے پہلے یہ بوجھ بھی عوام کو ”سہنا“ پڑھے گا۔ حکومت نے بجٹ میں ایل این جی (سی این جی) کی درآمد پر ٹیکس رعایت ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایل این جی اور سی این جی کی درآمد پر 3 فیصد کے حساب سے ٹیکس عائد کئے جانے کا امکان ہے۔ جس سے غریب آدمی کی درگت بنے گی۔ الیکشن کمشن آف پاکستان کے ارکان کو بغیر منظوری پانچ سال کے دوران تنخواہوں اور دیگر مراعات کی مد میں 41 کروڑ روپے ادا کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، ممبران کو اوسطاً ماہانہ 17 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی ہے، اسے کہتے ہیں دونوں ہاتھوں سے خزانے لوٹنا حکومت سکیل 1سے لیکر17تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں سو فی صد اضافہ کر ے۔اور کھانے پینے کی اشیاءپر ٹیکس نہ لگائے بلکہ یوٹیلٹی سٹورز پہ اشیاءخرددنوش کی قیمتوں کو کم ازکم ایک سال کے لیے”فریز“ کر دیں۔رمضان میںعمرے کی قیمتوں کو بڑھانے والوں کا نوٹس لیکر ان کے لائسنس کینسل کیے جائیں،بجٹ سے قبل پنجاب حکومت نے بجٹ میں کوڑا اٹھانے کیلئے لاہور کے ہر گھر پر ماہانہ 510 سے 590 روپے ٹیکس کی تجویز شامل کی ہے یہ وصولی سڑکوں کی صفائی اور کوڑا اٹھانے والی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کرے گی۔ اس وقت کمپنی کی آمدن تقریبا 20 کروڑ ہے جبکہ اگر کمپنی لاہور شہر کے ہر گھر پر ٹیکس عائد کر دے گی تو اس کو سالانہ 12 ارب روپے اکٹھے ہونگے۔ حکومت پنجاب نے لاہور کے شہریوں کو صفائی اور کوڑا اٹھانے کے لئے لسالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے شعبہ کو ختم کرکے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے نام سے پرائیوٹ سیکٹر سے ایک کمپنی بنائی تھی اور ترکی کی فرم کو ٹھیکہ دیا گیا کہ وہ لاہور شہر کی مین سڑکوں کی صفائی اورکوڑا اٹھائیں گے جس پر دو سال میں تقریبا 24 ارب روپے کا قرضہ حکومت پنجاب نے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کو دیا ہے، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اتنا پیسہ ضرچ کرنے کے باوجودپورے شہر میں صفائی کا نظام ابتر ہے۔ جگہ جگہ پہ کوڑے کرکٹ کے”ڈرم“ رکھے ہوئے ہیں جن سے اٹھنے والی”بدبو“ نے سانس لینا محال کر رکھا ہے لیکن”ہماری خوشحالی کا اصل عکس“ ملاحظہ فرمایئے صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں 2 ہزار ایم اے پاس امیدواروں نے محکمہ تعلیم میں چپڑاسی اور مالی کے عہدوں کے لئے درخواستیں جمع کروائی ہیں۔ چکوال میں 2 ہزار گریجویٹ اور ماسٹرز ڈگری کے حامل امیدواروں نے محکمہ تعلیم میں گریڈ 4 کی 653 اسامیوں پر درخواستیں جمع کروائیں۔ لیکن ان سیٹوں کے بارے اصل حقائق یہ ہیں محکمہ تعلیم کے افسران نے اعتراف کیاہے اگرچہ شعبے میں ان عہدوں میں بھرتی کے لئے باقاعدہ اشتہار کے بعد امیدواروں کو انٹرویو کے لیے بلایا گیا ہے لیکن یہ تمام اعلانات اور اشتہارات صرف خانہ پوری کے لیے کیے جاتے ہیں، ان عہدوں پراعلانات سے پہلے امیدوار منتخب کرلیے جاتے ہیں، حکومت ہر بچے کے لیے تعلیم لازمی قرار دے رہی ہے لیکن جو ہاتھوں میں ڈگریاں لیکر گھوم رہے ہیں انھیں نوکریاں کون دے گا؟

ای پیپر دی نیشن