اوسوے (اے ایف پی) بوسنیا ہرزگووینا 300 کے لگ بھگ افراد کا مشرق وسطیٰ جا کر داعش جیسی تنظیموں میں شامل ہونے کی اطلاعات ہیں تاہم اب بوسنیا میں انقلابی سوچ رکھنے والے مسلمانوںکیخاف کریک ڈائون کے بعد اس رجحان میں کمی آگئی ہے۔ بوسنیا کے شہری حکومت کی پالیسیوں کی تائید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بوسنیا کے ایک گائوں اوسوے کا عالمی طور پر چرچا ہوا جب یہاں سے 2 بڑے خاندان داعش جیسی تنظیموں میں شامل ہونے بیرون ملک گئے۔ اوسوے کے رہائشی 50 سالہ ہاڈزک نے بتایا کہ انہوں نے سب سے پہلے گائوں میں داعش کی مخالفت کی اور اپنی ’’زیمت‘‘ کمیونٹی کو داعش کی حمایت سے روکا تھا۔ انہوں نے کہا ہم یہاں اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خیال رہے 2015ء میں بوسنیا کے ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق داعش میں شامل ہونے والوں کا تعلق سلفی مکتبہ فکر سے ہے۔ 1992ء تا 1995ء میں بوسنیا میںشمالی افریقہ، ایشیاء اور مشرق وسطیٰ سے آنے والوں نے یہاں سلفی مکتبہ فکر متعارف کرایا تھا۔ ہاڈزک نے کہا بوسنیا میں 15 لاکھ مسلمان پرامن طور پر زندگی رہے جن کا داعش جیسی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں۔
بوسنیائی مسلمان