خطابات کے ساتھ ساتھ کام بھی کیجئے

کہتے ہیں کہ ایک بار وزیراعظم میاں نوازشریف کسی مرحوم صحافی کی تعزیت کے لئے گئے اور ان کے چھوٹے بیٹے سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے جانتے ہو؟ بچے نے ہاں میں جواب دیا۔ وزیراعظم نے پوچھا کہ میں کیا کرتا ہوں؟ بچے نے جھٹ سے جواب دیا کہ آپ ٹیلیویژن پر خطاب کرتے ہیں“ اس معصومانہ جواب نے لازماً ہر کسی کومحظوظ کیا ہو گا۔ تاہم خطاب تو میاں صاحب جلسوںمیں بھی بہت زبردست کرتے ہیں۔ کسی منصوبے کا افتتاح کریں تو وہاں بھی دھواں دار خطاب کرتے اور مخالفین کو چڑاتے نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں چین میں سیر حاصل خطابات کر کے آئے ہیں کئی بار اقوام متحدہ میں بھی خطاب کر چکے ہیں۔ ان کے خطاب کے دوران سامعین کا ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ انہوں نے خطاب بہرحال کرنا ہی ہوتا ہے انہیں اگر کوئی خطاب کا موقع نہ بھی دے تو بھی مائنڈ نہیں کرتے کیونکہ اس بار نہیں تو اگلی بار تو ان لوگوں کو وزیراعظم کے خطاب سے کوئی محروم نہیں رکھ سکے گا۔
وہ بڑے بڑے دعوے بھی خوب کرتے ہیں۔ خصوصاً الیکشن ۲۰۱۳ءسے پہلے انہوں نے جو دعوے کئے ان کی تو پیمائش بھی کوئی نہیں کر سکا ہو گا۔ اب جبکہ ان کی حکمرانی کو چار سال پورے ہو چکے ہیں وہ ابھی بھی دعوے کررہے ہیں۔ خصوصاً بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے بارے میں عوام کی فلاح کے دعوے بھی وہ تواتر سے کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بزنس کیا کرتے تھے۔ اب وہ خود کاروبار سے الگ ہیں۔ البتہ ان کے بیٹے اور دوست احباب کاروبار کرتے ہیں اور من چاہا منافع کماتے ہیں۔ ان کے کاروبار کی وسعت بھی بے اندازہ ہے۔ آف شور کمپنیاں اور بیرون ملک جائیداد انہوں نے اپنے بے انتہا پھیلے ہوئے کاروبار ہی کی بدولت خریدی ہیں۔
اس کے علاوہ وہ بیرون ممالک کے دورے بھی بہت کرتے ہیں۔ ان ممالک کے حکمرانوں سے اربوں ڈالر کے کاروباری معاہدے کرتے ہیں جس کی بدولت ملک میں سرمایہ کاری آتی ہے اور ملکی پراڈکٹس عالمی سطح پر متعارف ہوتی ہیں۔ مقامی لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور معاشی خوشحالی آتی ہے۔ ملک کا سافٹ کارنر ابھرتا ہے اور بیرون ممالک سے لوگ سیاحت و بزنس کے لئے ہمارے ملک میں آنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کھاتے پیتے ہیں۔ آرام کرتے ہیں۔ اگلے الیکشن میں جیتنے کے طریقے ڈھونڈتے ہیں۔ عوام کو لالی پاپ بجٹ دینے پر اپنے وزیر خزانہ کو شاباش بھی دیتے ہیں۔ شدید گرمی ٹھنڈے کمروں میں گزارتے ہیں اور عوام کو پوری بجلی بھی مہیا نہیں کرتے تاکہ شدید گرمی میں وہ بھی نہ چلا سکیں۔
جو کام وہ نہیں کرتے وہ غریب عوام کی فلاح و بہبود کے کام ہیں۔ مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کرتے ہیں لیکن اتنی رقم میں بقول شیخ رشید ایک بکری بھی نہیں پل سکتی۔ ایک خاندان گزارہ کیسے کرے گا۔ سرکاری ملازمین کو بھی الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنسا دیتے ہیں۔ ہر کوئی کیلکولیٹر پر اپنی بڑھنے والی تنخواہ کا حساب کر رہا ہے۔ کسی کا جواب ایک ہزار آتا ہے اور کسی کا پندرہ سو۔ یہ تنخواہ بھی یکم اگست کو ملنی ہے جبکہ بازار جانے پر پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں نے ہر چیز پر خود ساختہ بڑھی ہوئی قیمت فروخت کا لیبل لگا بھی دیا ہے وہ تعلیم و صحت پر بھی دعوے زیادہ اور خرچ بہت کم کرتے ہیں۔ خصوصاً اساتذہ اور ڈاکٹروں کو نظرانداز کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو تو شاید وہ اس لئے نظرانداز کرتے ہیں کہ تھوڑا سا بھی مرض ہو تو وہ بڑی بڑی سرنجیں چبھونے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خود جب وہ بیمار ہوئے تو دل کے بائی پاس آپریشن کے دوران انہوں نے ان پر خوب نشتر چلائے تھے۔ اتنے ظالم لوگوں کے لئے وہ مراعات کا اعلان کیسے کر سکتے ہیں بھلا۔
جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے تو مار نہیں پیار کا نعرہ آنے سے پہلے وہ سٹوڈنٹس کی خوب خبر لیتے تھے۔ میاں صاحب کے زمانہ طالب علمی میں تو مار کے بغیر تعلیم کا تصور بھی نہیں تھا اور جب اساتذہ کی بہتری کے بارے سوچنے کا وقت آتا ہو گا تو میاں صاحب خود کو لگے بید یاد کرتے ہوں گے۔ اور یوں اس ظالم طبقے کو مراعات دینے کا خیال بھی دل سے نکال دیتے ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن