کسی انتخابی عمل میں لوگوں کی ممکنہ ترجیحات کا جائزہ لینے کے لئے جو سروے کئے جاتے ہیں،ان کے سوال نامے بہت تحقیق کے بعد تیار ہوتے ہیں۔امریکہ میں یہ دھندا انتہائی ذہین اور تجربہ کار ماہرینِ نفسیات نے شروع کیا تھا جواپنی معاونت کے لئے سماجی علوم کی مختلف شاخوں کے اساتذہ سے بھی رجوع کرتے۔ انہیں ایسے سروے کرنے پر اشیائے صرف تیار کرنے والے سیٹھوں نے اُکسایا تھا جو علمی تحقیق کی بدولت یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ بازار میں کونسی نئی پراڈکٹ (Product)کی طلب نمودار ہورہی ہے۔ اس طلب کو ذہن میں رکھتے ہوئے کوئی ”نیا“ صابن وغیرہ متعارف کروادیا جاتا۔ اس کے ”نئے پن“ کا خوب پراپیگنڈہ کرنے کے بعد اسے مارکیٹ میں Floodکردیا جاتا۔
نت نئی مصنوعات کی مارکیٹ ڈھونڈ کر انہیں متعارف کروانے کے چلن نے بالآخر سیاست دانوں کو بھی ایک Productکے طورپر پیش کرنا شروع کردیا۔ امریکہ کا ایک سابق صدر کنیڈی پر آئرش کیتھولک تھا۔اس کا خاندان شراب کی غیر قانونی فروخت کی بدولت ”ککھ سے لکھ“ ہوجانے کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ ایسے سیاست دان کی پروٹسٹنٹ اکثریت والے امریکہ میں کامیابی کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی جہاں کسی صدر کے ذاتی کردار کو بھی کڑی نگاہ سے جانچاجاتا تھا۔
امریکہ میں لیکن 1960ءکے آغاز میں ٹیلی وژن سیٹ گھر گھر پہنچ چکا تھا۔کنیڈی کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ ٹی وی سکرین پر مردانہ وجاہت کا ایک کرشمہ ساز اور مجسم نمونہ نظر آیا۔ اس کے ساتھ ”وہ آیا اور چھاگیا“ والا معاملہ ہوگیا۔
80ءکی دہائی کے آغاز تک پہنچتے ہوئے امریکی معاشرہ ویت نام کی وجہ سے اپنے ملک کو ملی ذلت، جاپان کے اقتصادی عروج اور تیل کی دولت سے حال ہی میں مالا مال ہوئے عرب ممالک کے اُبھار سے بہت پریشان ہوچکا تھا۔ اس کا اصل شریک -کمیونسٹ سوویت یونین- بھی دنیا کے مختلف حصوں میں اپنے کنٹرول کو وسعت دیتا نظر آرہا تھا۔ دسمبر 1979ءمیں اس کی افواج نے افغانستان پر قبضہ کرلیا۔ اس ملک کے ہمسایے ایران میں امام خمینی کا لایا انقلاب بھی برپا ہوچکا تھا۔ یہ خطرہ پیدا ہوگیا کہ روس کے بعد ایران بھی مشرق وسطیٰ میں اپنے تئیں ایک علاقائی قوت کے طورپر ابھر کر امریکہ کو اس خطے سے نکال باہر کرے گا۔
کئی وجوہات کی وجہ سے خوفزدہ ہوئے امریکی معاشرے میں لیکن اس دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی ریگن نمودار ہوگیا۔ وہ Bکلاس فلموں کا ایک معمولی اداکار رہا تھا۔ ٹی وی سکرین پرلیکن ایک سیاست دان کی حیثیت میں ایک دراز قد ہیرو نظر آتا۔ پیچیدہ ترین سوالات کا وہ صرف One Linerجواب دیتا۔ امریکی قوت کے احیاءکا عہد کرتا اور لوگ اس پر اعتبار کرنے کو مجبور ہوجاتے۔
گزشتہ سال منتخب ہونے والا امریکی صدر ٹرمپ بھی کئی حوالوں سے بنیادی طورپر رونلڈریگن جیسا ہے۔ امریکی میڈیا کا مو¿ثر اور بالاتر حصہ اور انتخابی سروے کرنے والے لیکن اس کی ”کشش“ کو مناسب وقت پر دریافت نہ کرپائے۔ بالآخر ایک کڑے مقابلے کے بعد صدر منتخب ہوکر ٹرمپ نے صحافیوں اور سروے کرنے والوں کو شسدر کردیا۔
امریکی صحافت اور علمی دنیا کی اصل طاقت مگر یہ بھی ہے کہ وہ وقتی دھچکوں کی وجہ سے شکست کھاکر ایک کونے میں دبک کر بیٹھ نہیں جاتی۔ اس امر پر مسلسل غورکرتی رہتی ہے کہ اس کے ساتھ ”ہاتھ کیا ہوا ہے“۔
اسی سوال پر غور کرتے ہوئے اب دریافت یہ ہوا ہے کہ اپنی مارکیٹنگ کے لئے کسی سیاستدان کو محض عقلی دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں میں نسلوں سے بیٹھے تعصبات کو مکمل طورپر جھوٹی کہانیوں کے ذریعے ہوا دے۔ انہیں اس خوف میں مبتلا رکھے کہ ان کا وجود خطرے میں ہے اور اس خطرے سے صرف کوئی منہ پھٹ جی دار ہی نبردآزما ہوسکتا ہے۔
بھارت اور ترکی میں نریندر مودی اور رجب اردوان نے خوف کی مسلسل فضاءپیدا کرنے کے بعد ہی خود کو ”عصر حاضر“ کے ”مردانِ آہن“ ثابت کیا تھا۔ٹرمپ نے وہی ٹیکنیک امریکہ میں بھی استعمال کی اور کامیاب ٹھہرا۔
آج کے پاکستان میں بھی کرپشن اور قومی ”ذلت ورسوائی“ کے بارے میں مسلسل سیاپا فرماتے اینکر خواتین وحضرات اور مجھ ایسے کالم نگاری کے نام پر بھاشن دینے والے کلاکاروں کی بدولت ایسی فضا بن چکی ہے جہاں ”چرخے کی کوک“سن کر ”پہاڑوں سے اترآنے والے جوگی“ کا عوام استاد اسد امانت علی خان کے گیت میں بیان کئے”پباں بھار“ بیٹھے شدت سے انتظار کررہے ہیں۔یہاں تک پہنچنے کے بعد شاید مجھے نام لکھ کر یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں رہی کہ عصر حاضر کا ”جوگی“ اور ”رانجھا“ کس شخص کو بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
اصل حیرت مگر مجھے اس وقت ہوئی جب ہماری امیدوں کے مرکز بنائے اس ”رانجھے“ نے حال ہی میں تواتر کے ساتھ پاکستان کے ان ”اچھے دنوں“ کو یاد کرنا شروع کردیاجب ہمارا صدر امریکہ پہنچا تو وہاں کا صدر اس کے استقبال کے لئے ہوائی اڈے پر اپنی کابینہ سمیت خود موجود ہوتا۔
پاکستان کے ”اچھے دن“ صرف اس عہد سے منسوب کئے جارہے ہیں جب کسی دشمن ملک کی ایک انچ زمین بھی فتح نہ کرنے کے باوجود اپنی معیادِ ملازمت میں دوبار توسیع لینے کے بعد 1958ءمیں اس ملک پر بندوق کی طاقت سے قبضہ کرنے والے ”فیلڈمارشل“ نے ایک نہیں پورے دس سال ایک بہت ہی بااختیار صدر کے طورپر گزارے تھے۔
لاہور کے ایچی سن کالج اور آکسفورڈ جیسے مرکز علم کے ایک کالج سے تعلیم یافتہ ہمارا ”رانجھا“ انتہائی ڈھٹائی سے اس آمر کے دس سالوں کو پاکستان کا ”سنہری دور“ قرار دے رہا ہے۔میرا اصل دُکھ یہ بھی ہے کہ ”لفافہ“ کہلانے کی تہمت سے خوفزدہ ہوئے ہمارے کئی لکھاری اور بھاشن دینے والے کلاکار اس ”سنہری دور“ کی حقیقتوں کو بیان کرنے کی جرا¿ت سے محروم ہوچکے ہیں۔
کاش ہم میں سے کوئی ایک شخص بھی تھوڑا وقت نکال کر صرف یہ دریافت کرپاتا کہ 1958ءتک پاکستان کتنی بار ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے درپر اپنی معیشت کو رواں رکھنے کے لئے ”قرضے“ یا ”امداد“ کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس ”سنہری دور“ میں البتہ کمیونسٹ روس کے خلاف پاکستان کی عسکری قوت کو توانا بنانے کی کوشش ضرور ہوئی۔ ہمیں جدید ترین اسلحہ،ٹینک اور ٹریننگ وغیرہ بہت فیاضی سے فراہم کئے گئے۔ امریکہ سے مستعار لی اس طاقت کو لیکن جب اس ”فیلڈ مارشل“ نے 1965ءمیں بھارت کے خلاف استعمال کرنا چاہا تو Stalemateہوگیا۔
امریکہ میں اپنا ”شاندار“ استقبال کروانے والا ”مردِ آہن“ 65ءکی جنگ کی وجہ سے مجبور ہوگیا کہ کمیونسٹ روس سے اپنے ملک کے تحفظ کی درخواست کرے۔ وہ تاشقند جاکر بھارت کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ معاہدے کرنے کے دُکھ میں اس نے الطاف گوہر جیسے موقعہ پرست اور چرب زبان ”سول سرونٹ“ سے اپنی آپ بیتی لکھوائی۔ ”اس رزق سے موت اچھی“ اس کتاب کے اُردو ترجمے کا عنوان تھا۔ انگریزی میں اسے Friends not Mastersکہا گیا۔
”قومی حمیت“ کے غم میں مبتلا ہمارے رانجھے کو مگر بنیادی حقیقتوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔اس کی یادداشت Selectiveہے۔ اسے پاکستان کے ”اچھے دنوں “ میں ہمارے ایک آمر کا امریکہ میں ”شاندار استقبال“ ہی یاد رہتا ہے۔ وہ یہ بات نہیں جانتا کہ بالآخر ہمارا وہ ”فیلڈ مارشل“ خود ہی یہ دہائی دینے پر مجبور ہوا کہ پاکستان ایسے ملکوں کے "Friends" نہیں "Masters" ہوا کرتے ہیں۔ حال ہی میں ریاض میں ہوئی ایک ”اسلامی فوجی اتحاد“ والی کانفرنس میں ہمارے ساتھ یہی تو ہوا ہے۔ ہماری ”قومی ذلت“ کا یہ پہلا واقعہ تو نہیں تھا۔
عصر حاضر کا ”جوگی“ اور ”رانجھا“
May 30, 2017