کوئی سچ بولنے کیلئے تیار نہیں ملزم بری ہوتو الزام عدالت پر آجاتا ہے:سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+صباح نیوز)سپریم کورٹ میں متفرق مقدمات کی سماعت کے دوران عدالت نے 12سال بعد قتل کے ملزم بشارت علی کو ناکافی شواہد پر بری جبکہ ملزم فتح شیر اور عبدالصمد کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ہے ۔ منشیات کیس کے ملزم فیضان علی کی دس سال کی سزاء کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی کیونکہ کوئی غلطی نہ ہوجائے ہم نے بھی اللہ کو جان دینی ہے محض کسی تاثر کے تحت بھی فیصلہ نہیںکرسکتے ، استغاثہ کو حقائق سامنے لانے کیلئے بھاری تنخواہیں دی جاتی ہیں ، مقدمہ کے وکیل نور عالم نے کہا کہ وہ ہفتہ کو روزے تھے اور انہیں کاز لسٹ بھی نہیں ملی تھی اس پر جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ لگتا ہے آپ نے پوپلزئی والا ہفتہ کا روزہ رکھا تھا وگرنہ ملک میں تو اتوار کا پہلا روزہ تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ تین افراد قتل ہونے پر بھی کسی میں سچ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی، کوئی سچ بولنے کو تیار نہیں اور الزام عدالت پر آ جاتا ہے کہ ملزم بری ہو گیا ۔جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ بد قسمتی ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں ایسی غلط تحقیقات کرتی ہیں کہ اصل حقائق مسخ ہو جاتے ہیں۔ عدالت نے قرار دیا کہ اپیل کنندہ ملزم بشارت علی پر کوئی اور مقدمہ بھی نہیں تاہم اس پر ڈکیتیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ المیہ ہے کہ ظالمان نے حقیقت چھپائی ہے ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ استغاثہ کے گواہوں نے وقوعہ صبح دس بجے بتایا جبکہ ایف آئی آر میں رات دس بجے کا وقوعہ لکھا گیا۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ المیہ یہ بھی ہے کہ گواہ سچ نہیں بولتے سچ میں بڑی طاقت ہے۔ مدعیان سچ بولنے کو تیار نہیں اور جھوٹی گواہی کو ہم نہیں مانیں گے۔

ای پیپر دی نیشن