”خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے“

اسد درانی صاحب کے ساتھ یقیناً منیر نیازی کے بیان کردہ ”کج شہر دے لوک وی ظالم سن“ والا معاملہ ہوگیا ہے۔ میں اگرچہ اپنے اس دعویٰ پر قائم ہوں کہ اگر نواز شریف کے Should اور Allow والے انٹرویو پر ضرورت سے زیادہ ہنگامہ برپا نہ ہوا ہوتا تودرانی صاحب کے ساتھ بھی ”رات گئی بات گئی“ ہو جاتا90 کی دہائی میں درانی صاحب ملٹری انٹیلی جنس اور ISI جیسے طاقت ور اداروں کے سربراہ رہے ہیں۔ ان عہدوں پر فائز لوگوں کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوا کرتے تھے۔ حاسد حساب برابر کرنے کے منتظر رہتے ہیں۔
درانی صاحب بھی ریٹائرمنٹ کے زمانے میں محض گالف کھیلنے یا باغبانی میں جی لگانے کو تیار نہیں تھے۔ خود کو Idea Man سمجھتے ہیں۔ آدمی بولے تو پہچانا جاتا ہے۔ پہچان ہو جائے تو اندھی نفرت و عقیدت میں بٹے معاشرے میں نہ چاہتے ہوئے بھی مختلف معاملات کے ضمن میں ”فریق“ بن جاتا ہے اور ”فریق“ کو اپنی کہی باتوں کافائدہ بھی ہوتا ہے اور نقصان بھی۔ وقت وقت کی بات ہے۔ درانی صاحب کے مقدر میں فی الوقت وقت بُرا ہے۔ آدمی اگرچہ وہ دیوانے نہیں ہیں۔ انہیں سماجی واسطوں سے کافی جانتے ہوئے میرے لئے کافی مشکل ہے کہ یہ فرض کرلوں کہ انہیں اس کتاب کے چھپ جانے کے بعد اُٹھے طوفان کا اندازہ نہیں تھا جو ایک بھارتی صحافی نے ان کے اور ’را‘ کے ایک سابقہ چیف کے مابین ہوئی طویل ملاقاتوں کے دوران ہوئے مکالمے کی بُنیاد پر لکھی ہے۔
فوج کے اہم عہدوں سے ریٹائرمنٹ کے بعد کتاب لکھنے کے لئے غالباً Mother Organizations سے Vetting کروانا ضروری ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے فوری بعد کے سالوں میں صدیق سالک صاحب کی ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ کے لیکن بہت چرچے رہے تھے۔ ایک جذباتی پاکستانی اور 70 کی دہائی میں بلوغت کی جانب بڑھتے ہوئے مجھے اس سانحے نے بہت دھچکا لگایا تھا۔ کئی بار یہ کتاب پڑھی۔ دل ہی دل میں تلملاتا رہا۔
صدیق سالک مرحوم جنرل ضیاءکے دنوں میں ISPR کے ایک دھانسو افسر تھے۔ ایک نوجوان رپورٹر کی حیثیت میں میرا رویہ شاید ان دنوں کافی ”تخریبانہ“ تھا۔ ایمان داری کی بات مگر یہ بھی ہے کہ سالک صاحب نے مجھے ”دوست“ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہمیشہ شفقت فرمائی۔ ادب کے ساتھ میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اکثر چند کتابیں بھی بھجوا دیا کرتے تھے۔ کئی بار اپنے انداز میں حکمرانوں کے غضب سے بھی بچایا اور مجھے اپنی شفقت کا علم تک نہ ہونے دیا تاکہ میں خود کو ان کا احسان مند محسوس نہ کروں۔ جنرل حمید گل مرحوم کے خیالات سے میرے اتفاق کا ہرگز کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ اس کے باوجود ہمیشہ مجھے فکری مباحث میں اُلجھاتے رہے۔ ان دنوں وہ ماحول ہرگز نہیں رہا۔ اکثر سوچتا ہوں:”ذرا سی دیر میں کیا ہوگیا زمانے کو“۔
خواہش میری اب بھی فقط اتنی ہے کہ متنازعہ ہوئی کتاب کو اس کے خلاف شور برپا کرنے والوں نے پڑھ بھی لیا ہوتا۔ اس کتاب سے جڑے کئی معاملات ہیں جن پر قسط وار کالم لکھے جا سکتے ہیں۔ ذاتی طور پر میں صرف یہ حقیقت یاد دلانا چاہوں گا کہ دلت اور درانی کشمیر کی صورتِ حال پر ہوئے مکالموں میں انتہائی بے بسی سے یہ تسلیم کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ 90کی دہائی میں اُبھرنے والی تحریک ِ آزادی کا درست تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔ اس تحریک کی بے ساختگی اور شدت نے ان دونوں کو حیران کر دیا۔ اس تحریک کو Regulate کرنا ناممکن ہے۔
کتابوں کا ذکر چھڑا ہے تو مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ جنرل مشرف کی اپنے دورِ اقتدار میں بطور صدر لکھی The Line Of Fire IN وطنِ عزیز کے Imageکو فائدے کے بجائے نقصان پہنچانے کا موجب بنی۔ ان دنوں بھی تواتر کے ساتھ وہ اپنے ٹیلی وژن انٹرویوز میں ایسی کئی باتیں کہہ جاتے ہیں جو میری عاجزانہ رائے میں عدلیہ کی آزادی پر سوال اُٹھانے کو مجبور کر دیتی ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے پاکستانی معیشت پر جو دباﺅ بڑھ رہا ہے اس کو بھی ان کی کہی چند باتیں ٹھوس جواز فراہم کرتی ہیں۔ ان سے مگر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی۔
ایک کتاب شاہد عزیز صاحب نے بھی لکھ کر بہت تھرتھلی مچائی تھی۔ اس کا مواخذہ انتہائی ضروری تھا۔ لیکن درگزر سے کام لیا گیا۔ گزشتہ کئی ماہ سے جنرل صاحب سین سے غائب ہیں۔ آج سے چند ماہ قبل مجھے ایک انتہائی معتبر شخص نے ایک اہم گھر میں ہوئی دعوت سے باہر لان میں لاکر ان کے بارے میں ایک ”اطلاع“ دی تھی۔ میں اس ”اطلاع“ سے اتنا سہم گیا کہ اسے اشاروں کنایوں میں اس کالم میں لکھنا تو دور کی بات ہے اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی Shareکرنے کی جسارت نہ کر پایا۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں لیکن جنرل مشرف صاحب نے وہی ”اطلاع“ لاکھوں لوگوں تک پہنچادی ہے۔ ان کی جانب سے پھیلائی اس ”اطلاع“ نے ہمارے کئی ریٹائرڈ افسروں کو پریشان کردیا ہے۔ فوج کے مختلف عہدوں سے لوگ نسبتاً عمر کے اس حصے میں ریٹائر ہوتے ہیں جب وہ ذہنی اور جسمانی حوالوں سے کافی Fit ہوتے ہیں۔ انہیں پرائیویٹ سیکٹر میں روزگار ملنے کے امکانات ایک ریٹائرڈ سویلین افسر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ بڑے ٹھیکے لینے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی انہیں ترجیحی طورپر ملازمت کی پیش کش کرتی ہیں۔ میری ایسے کئی افسران سے سماجی ملاقاتیں ہوئیں تو وہ پرویز مشرف کی جانب سے شاہد عزیز کے بارے میں پھیلائی ”اطلاع“ کے حوالے سے بہت پریشان نظر آئے۔ ان کی دانست میں اس ”اطلاع“ کے فروغ کی بدولت پاک فوج سے ریٹائرڈ ہوئے افسران کو بلاتخصیص جبلی حوالوں سے شک وشبے کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ شاید اس کی وجہ سے انہیں غیر ملکی سفر کے لئے ویزا وغیرہ کے حصول میں بھی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پرویز مشرف صاحب نے اپنی فراغت اور راحت کے دنوں میں لیکن ان ممکنہ پریشانیوں کو ذہن میں نہیں رکھا۔ انہیں بے سبب”مشکوک“ Categoryمیں دھکیل دیا۔
اندھی نفرت اورعقیدت میں تقسیم ہوئے اس دور میں اعصاب کو ٹھنڈا رکھنے کی شدید ضرورت ہے۔ ریگولر اور سوشل میڈیا کو میں صحافی ہوتے ہوئے بھی اصرار کر رہا ہوں کہ ہماری ریاست کے دائمی ادارے ضرورت سے کہیں زیادہ اہمیت دینا شروع ہوگئے ہیں۔ خواہ مخواہ کے شورشرابے اور سیاپے کو نظرانداز کرنا آپ کی کمزوری نہیں طاقت کا مظہر ہوتا ہے۔ میڈیا کی بدولت اُٹھا طوفان جسے Hype کہا جاتا ہے ہمیشہ چند روزہ ہوتا ہے۔ اکثر معاملات میں اس Hype کو بردبار انداز میں نظراندازکر دینا ہی بہتر ہے۔ شہر دے ظالم لوگوں کو اہمیت دیتے ہوئے یہ مصرعہ بھی یاد کر لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ”خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے“۔
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن