مادُھوری گُپتا کو پاکستان کیلئے جاسوسی کے الزام میں تین سال قیدکی سزا سنا دی گئی۔ مادھوری گپتا نے ماتا ہری کی طرح جاسوسی نہیں کی۔ اس کو کچھ کلاسیفائیڈ معلومات اپنے پاکستانی دوستوں مبشر اور جمشید کو فراہم کرنے کا قصوروار پایا گیا۔ مادھوری نام سے ماضی قریب کی خوبرو انڈین اداکارہ مادھوری ڈکشت کا تصور اور سراپا آنکھوں کے سامنے لہرا جاتا ہے مگر مادھوری گُپتا کا حسن ایسی بجلیاں گرانے والا نہیں وہ جسامت اور حسن و جمال میں ڈکشت کا عکسِ برعکس نظر آتی ہے۔ 2010ء میں اسے سارک اجلاس کی تیاریوں کے حوالے سے دہلی بلا کر گرفتار کرلیا گیا۔ اس وقت مادھوری گپتا کی عمر 53 سال تھی اس عمر میں بھی ناری کنواری تھی ۔ مادھوری گُپتا جمشید سے محبت کرتی تھی۔ جمشید نے بھی شاید معلومات کے حصول کیلئے فریبِ الفت دیا ہو۔ وہ سیریس بھی ہوسکتا ہے۔ گرفتاری کے بعد مادھوری دو سال جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا کردی گئی۔ جن دفعات کے تحت مادھوری گپتا کو سزا دی گئی ان کے تحت تین سال ہی زیادہ سے زیادہ سزا ہوسکتی تھی۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ اس کے اقدامات سے انڈیا کی ساکھ کو نقصان اور سلامتی کو زک پہنچی۔ لگتا ہے جج نے مادھوری کو بھارتی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی نہیں پاکستانی سے شادی کی حسرت کی سزا دی۔ اس فیصلے کے بعد ایک معمولی سفارت کار کو جاسوسوں کی صف میں شامل کردیا گیا۔
جاسوسی کی دنیا میں بہت کچھ ناقابل یقین بھی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہورہا ہے۔امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے ایک خوبرو خاتون ڈینیلا گرین کو داعش کے ایک لیڈر کی جاسوسی پر مقرر کیا ۔ اس کا ہدف جرمنی کا مشہور ریپ گلوکار ڈینس کسپرٹ تھا جو فن کی دنیا میں ڈیسوڈاگ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 2015ء میں امریکی وزارت خارجہ نے کسپرٹ کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے بتایا کہ وہ داعش کیلئے لوگوں کو بھرتی کررہا ہے۔ داعش نے اس کو ابو طلحہ الالمانی کا نام دیا تھا۔ گرین جب ابو طلحہ الالمانی کو واچ کررہی تھی وہ امریکہ سے بچ بچا کر شام چلا گیا۔ گرین چیکو سلواکیہ میں پیدا ہوئی، اس نے ایک امریکی فوجی سے شادی کی۔ وہ 2011ء سے ایف بی آئی کیلئے کام کررہی تھی۔
ایک روز گرین نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ والدین کو ملنے جرمنی جارہی ہے تاہم وہ جرمنی کے بجائے ترکی جانکلی اور سرحد عبور کرکے شام چلی گئی۔ شاید وہ اپنے کام سے اس قدر کمٹڈ تھی کہ اپنے ہدف کے پیچھے اپنی جان کی پروا کئے بغیر بڑھ گئی تھی۔ بالکل وہ اپنے کاز کیلئے جان کی بازی لگا رہی تھی مگر اس کا کازاور کریز(craze) کچھ اور تھا۔
امریکہ میں ابو طلحہ کا تعاقب کرتے کرتے اس کی شاید ملاقاتیں بھی ہوئی ہوں۔ اس کے کوئی شواہد نہیں، مگر وہ اس کے عشق میں مبتلا ہوگئی تھی۔ گرین نے اپنے داعشی محبوب کی تلاش میں دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک علاقے کا سفر کیا ، اسے ڈھونڈ نکالا اور اس کے ساتھ شادی کر لی۔ کئی ماہ اس کے ساتھ گزارے۔ پھر اسے پہلے خاوند کی یاد نے ستایا،یاکچھ اورہوا محض دو ماہ میں 38 سالہ گرین نے داعش کے زیر کنٹرول علاقوں سے نکل جانے کا راستہ تلاش کرنا شروع کر دیا۔ جولائی 2014 میں اس نے اپنے ایک دوست کو لکھا کہ "اس مرتبہ میں پھنس گئی ہوں"۔بعد ازاں ایک اور پیغام میں گرین نے لکھا کہ " مجھے نہیں معلوم کہ میں یہاں کتنا وقت رہوں گی مگر اس بات کی اب کوئی اہمیت نہیں کیوں کہ میرے نزدیک دیر ہو چکی ہے"۔شام پہنچنے کے بعد دو ماہ سے بھی کم عرصے میں یعنی اگست 2014 کے اوائل میں گرین امریکا واپس پہنچ گئی، جہاں اسے گرفتار کر لیا گیا۔گرین نے فوری طور پر تمام واقعات کا اعتراف کرتے ہوئے امریکا میں استغاثہ کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنے سفر کے حوالے سے ایف بی آئی کو جھوٹی معلومات فراہم کرنے کا بھی اقرار کیا۔ ڈینیلا گرین 24 ماہ کی قید کی سزا مکمل کرنے کے بعد گزشتہ برس رہا ہو گئی۔ گرین کو دہشت گرد سے رابطوں اور اپنے فرائض سے روگردانی اور ملکی مفادات سے کھیلنے کی نہیں جھوٹ بولنے کی سزا دی گئی۔
بل کلنٹن کا مونا لیونسکی کے ساتھ معاشقے کا چرچا ہوا تو امریکی صدر نے اس سے انکار کیا تاہم ثبوتوں کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ ان پر کیس لیونسکی سے افیئرکا نہیں جھوٹ بولنے کا چلا تھا۔ بل کلنٹن ہمارے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے گہرے دوست تھے۔ کلنٹن لیونسکی معاشے میں پھنسے تو انہوں نے ان سے رائے مانگی تو صائب مشورہ دیتے ہوئے کوزے میں دریا بند کر دیا۔’’ Money makes mare go‘‘ کلنٹن نے اس آزمودہ کلیے پر عمل کیا یا نہیں اس کی نوازشریف دوستی اتنی گہری ہوئی کہ ان کی جان بخشی کرا کے سعودی عرب بھجوا دیا۔ مشرف تو میاں صاحب کو تختہ دار پر لے جانے کیلئے تلے ہوئے تھے مگر اللہ نے انہیں تیسری بار وزیراعظم بننے کا شرف بخشا۔
میاں نوازشریف کے ممبئی حملوں کے بارے میں بیان سے پاکستان کو پریشانی کا سامنا ہے ۔ ممبئی حملے بھارت کا رچایا ہوا ڈرامہ تھا۔ خودبھارتی رائٹرز کے مطابق اجمل قصاب کو ممبئی حملوں سے دو سال قبل کھٹمنڈو سے اغواء کیا گیا ۔ بھارت نے اسے ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کیخلاف استعمال کیا۔ پاکستان کی طرف سے ممبئی حملوں کے بارے میں ہمیشہ لاتعلقی کی جاتی رہی ہے۔ اگر یہ پاکستان کی مرضی سے ہوتے تو یہ قومی راز ہے اور ایسا راز افشاء کرنے والے جوبلا ترد و حیل وحجت غدار کہہ دیا جاتا ہے۔مگر کہنے سے فرق نہیں پڑتا۔ اگر پاکستان ممبئی حملوں کے معاملے میں ملوث نہیں عوامل اور شواہد سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جو کہا گیا وہ جھوٹ کے زمرے میں بھی آتا ہے۔ مگر یہ ملک توڑنے سے بڑا جرم نہیں ہے۔سابق آئی ایس آئی سربراہ اس درانی نے بھارتی را کے سابق ہیڈدُلت کیساتھ بیٹھ کر مکالمہ کیا جس کو ادتیہ سنہا نے کتاب کی شکل دیدی۔جو وجہ تنازع بن چکی ہے۔اسد درانی بغاوت کے کیس کا سامنا ہوسکتا ہے۔نام ای سی ایل میں آگیا،ایک جنرل انکوائری کرے گا۔درانی پر جو بھی کیس بنے،ان پر جھوٹ کا الزام نہیں ہے۔
انتخابات کا موسم ہے‘ سیاست کا بازار گرم ہے مگر اندرونی و بیرونی حالات سازگار نہیں۔ بیرونی حالات بہتر کرنے کیلئے فعال سفارتکاری اور حکومت کی کمٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ حکومت کا چل چلاؤ ہے۔ ہر پارٹی اپنے لیڈر کو ’’پرجا‘‘سمجھ کر اس کی جے جے کار کررہی ہے۔ قومی مفاد کیا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ ایسی بے اعتنائی ملک کو کمزور کررہی ہے۔ گزشتہ دنوں مہر سعید ظفر پڈھیار فون پر ملکی حالات پر دل گرفتہ تھے اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سٹیک ہولڈرز کو باہم سر جوڑ کر ملک کو اس بحران سے نکالنے کی اپیل کررہے تھے۔ اگلے ماہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی طرف سے پاکستان کو واچ ،گرے یا بلیک لسٹ میں شامل کرنے پر غور ہونا ہے۔ ہمارے ایک لیڈر کی نادانی سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا اور ایف اے ٹی ایف کی تلوار مزید نیچی ہو کر لٹکتی نظر آرہی ہے۔ سٹیک ہولڈر کو ایک پیج پر ہونا چاہئے۔ آج کے عمومی سٹیک ہولڈرز مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف‘ پی ٹی آئی و پی پی پی کے لیڈر عمران خان‘ آصف زرداری‘ چیف جسٹس ، آرمی چیف اور نامزد نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصرالملک ہیں۔