پاکستان کی کلی سبیکا عزیز، امریکہ میں کمہلا گئی !

الطاف احمد خان مجاہد
خواب ہرشخص دیکھتا ہے ۔ خواب سبیکا نے بھی دیکھے بڑے ہوکر پڑھ لکھ کر سفیر بننے کے ، ملک وقوم کی خدمت اس کا عزم تھا لیکن یہ سب سپنے بکھرگئے امریکہ کے شہر ہوسٹن میں، جہاں ایک جنونی طالب علم نے درندگی کا کھیل کھیلا اور دس طلباء وطالبات کی جان لے لی۔ ان میں کراچی کی 17سالہ سبیکا بھی شامل تھی۔ کراچی پبلک سکول کی طالبہ کم عمری ہی میں اپنی ذہانت اور فطانت سے دوسروں کو متاثر کرنے والی باصلاحیت سبیکا چاہتی تھی کہ مقابلے کا امتحان کوالیفائی کرکے فارن سروس جوائن کرے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کینیڈی لوگریوتھ ایکسچینج پروگرام 2002ء سے شروع کررکھا ہے اس پروگرام کے تحت پوری دنیا بالخصوص مسلم اکثریتی ممالک سے طلباء کو ایک برس کے لئے امریکہ بلایا جاتا ہے تاکہ مختلف معاشروں کے طلباء کو باہمی میل ملاپ ، وقت گزارنے اورایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل سکے ان طلباء کو یوتھ ایمبیسڈر کا درجہ دیا جاتا ہے اور ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک، طرزمعاشرت ثقافت روایات اور اقدار سے دوسروں کو آگاہ کرسکیں ان کی رہائش کا امریکی خاندان کے ساتھ بندوبست ہوتا ہے اور امریکی سکولوں میں تعلیم کا اہتمام ۔ ہر برس 80 طلباء منتخب کئے جاتے ہیں اب تک اس پروگرام کے تحت ایک ہزار سے زائد طلبا وطالبات کو پاکستان سے امریکہ جانے کا موقع مل جاتا ہے۔ سبیکا کے متعلقین بتاتے ہیں سبیکا کا قیام امریکہ میں جے سین کوگ برن فیملی کے پاس تھا۔ جے سین نے جو شوگرلینڈ کی مسجد حمزہ میں نماز جنازہ کے وقت موجود تھے اور افسردہ بھی بتانے لگے کہ ہمیں ہنس مکھ اور ملنسار سے پاکستانی ثقافت، ویلیوز اور روایات کا پتہ چلا وہ ہمیں اپنے وطن دوستوں او عزیزو اقارب کے قصے باتیں دلچسپ انداز میںسناتی تھیں ان کی وجہ سے پاکستان دیکھنے کا اشتیاق بڑھا اور دل چاہا کہ مزید روابطہ بڑھیں ۔ جے سین نے سبیکا کی تعریف کی اور کہا کہ وہ ہمارے بچوں میں گھل مل گئی تھی، ہمیں اس تمیزدار بچی نے نہ صرف متاثرکیا بلکہ اپنا گرویدہ بنا لیا تھا ہمیں اس کے گھروالوں کے دکھ اور کرب کا اندازہ ہے وہ ہمیشہ ہماری دعاؤں اوریادوں کا حصہ رہے گی ۔ ہم اسے کبھی نہیں بھلا پائیں گے۔
امریکہ کے سکول یا تعلیمی اداروں میں یہ فائرنگ کا پہلا واقعہ نہیں ماضی میں بھی ایسے دل گذاز واقعات پیش آچکے ہیں، جنہوں نے کتنے ہی گھرانوں کو ہمیشہ کے لئے افسردہ کردیا تھا ایک رپورٹ میں ہونٹوں سے مسکراہٹ چھین لینے واقعات کی تعداد کم وبیش دودرجن بتائی گئی ہے۔ مسلم معاشروں پر تشدد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے بے بنیاد الزام عائدکرنے والے جواز پیش کریں گے سبیکا کے والد عبدالعزیز اور والدہ فرح نے توجیتی جاگتی مسکراتی کھکھلاتی سبیکا کو امریکہ بھیجا تھا لیکن انہوں نے اس کا تابوت وصول کیا خوشیاں ان کے گھر سے رخصت ہوگئیں ۔
سبیکا کے والد شیخ عبدالعزیزبتانے لگے کہ اسے اسکالرشپ ملی تونہ صرف وہ بلکہ ہم سب خوش تھے لیکن اسے امریکہ بھیجنا ہماری زندگی کا تلخ فیصلہ تھا اب بھی دل نہیں مانتا کہ ہماری پیاری بیٹی ہمیں روتا چھوڑکر دورجا چکی ہے ۔ دس ماہ قیل وہ امریکہ سدھاری تھی باقاعدگی سے روزے رکھنے والی سبیکاکی آمد پر ہم نے بڑے انتظامات کئے تھے افطارکے ، عید کے اور خوشیوں کے لیکن مسرتیں توروٹھ چکی ہیں ۔ سبیکا کی واپسی 9جون کوطے تھی۔
سبیکا کے ایک رشتہ دار نے بتایا کہ شیخ عبدالعزیز اورفرخ عزیزتین بیٹیوں اورایک بیٹے کے والدین ہیں سبیکا کا نمبربیٹیوں میں پہلا تھا ۔ کری ایٹورائٹنگ میں ایوارڈ کی حامل یہ طالبہ گزشتہ برس 21 اگست کو 10ماہ کے لئے امریکہ گئی تھی۔ پڑھنے لکھنے سے شگف رکھنے والی سبیکا کا اسٹڈی روم کتابوں سے بھرا ہوتا تھا ، وہ ڈائری بھی لکھتی تھی اور معنی خیزجملے بھی۔ ایک صفحے پر اس نے تحریرکیا۔
ماما اس بات پر مت رونا کہ سب ختم ہو
گیا بلکہ اس بات پر مسکرانا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا
سبیکا نے اپنے اہل خانہ سہیلیوں اور اساتذہ ہی کو افسردہ نہیں کیا۔ امریکہ میں میزبان جے سین کوگ برن ان کی اہلیہ جولیان اور ہم جماعت جیلائن کو بھی رلا دیا میت کی پاکستان آمد سے قبل تعزیتی تقریب میں یہ تمام لوگ اشک بار تھے اور زار و قطار رو رہے تھے۔ ہیوسٹن کے برانڈ لین اسلامک سینٹری تقریب میں کوگ برن فیملی کے چھ کے چھ بچے شریک تھے اور سبیکا کو یادکررہے تھے کراچی سے امریکہ کا سفراور حصول علم کا جذبہ ناگہانی موت اور یادیں عزیزفیملی کبھی نہیں بھلاپائے گی۔
سبیکا کراچی کی شاہ فیصل کالونی کے عظیم پورہ قبرستان میں منوں مٹی کے نیچے آرام کررہی ہے پوری دنیا میں امن مذہبی ہم آہنگی اور تشدد سے پاک معاشروں کے قیام کا مدعی ا مریکہ اپنے ملک میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا حکمت عملی وضع کرے گا؟ یہ سوا جواب چاہتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن