اسلام آباد (عبداللہ شاد) فروغ علم کے لئے پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر کو مشترکہ کوششیں کرنا پڑیں گی تا کہ اسلام آباد جیسا دارالحکومت خواندگی کے حوالے سے مثالی بن جائے۔ یہ ہدف مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ ان خیالات کا اظہار نیشنل ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سکولز کے صدر چوہدری عبید اللہ نے نوائے وقت کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کا پرائیویٹ سیکٹر فیس ایشو پر مخمصے کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ بلڈنگ کا کرایہ ، اساتذہ کی فیس و دیگر یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کیونکر ممکن ہو پائے گی۔ تعلیم کے ضمن میں آسانیاں پیدا کرنی چاہیں۔ 90 فیصد پرائیویٹ سکول کرائے کی عمارتوں میں ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق پرائیویٹ تعلیمی ادارے اگر دو تین ماہ فیس وصول نہیں کریں گے تو اپنے اساتذہ و سٹاف ممبران کو تنخواہیں بھی نہیں دے سکیں گے اور عمارتوں کا کرایہ ، بجلی، گیس اور فون وغیرہ کے بلز بھی ادا نہیں کرسکیں گے۔نیشنل ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سکولز کی ٹیم میں سینئر نائب صدر زاہد بشیر ڈار اور جنرل سیکرٹری عترت نقوی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ زاہد بشیر نے بتایا کہ ایسوسی کے تحت تقریباً 150 پرائیویٹ سکول آتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ اس فیصلے سے چھوٹے سکول متاثر نہیں بلکہ دیوالیہ ہو جائیں گے، سکول نہیں چلیں تو نقصان مستقبل کے معماروں کا ہو گا۔ عترت نقوی نے کہا کہ دنیا کا کوئی تعلیمی ادارہ خواہ وہ پبلک ہو یا پرائیویٹ اس طرح فیس وصول نہیںکرتا کہ درمیان میں آنے والی تعطیلات کی فیس چھوڑ دے ۔ چوہدری عبید نے کہا کہ نیشنل ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سکولز نوائے وقت کے توسط سے اپیل کرتی ہے کہ برائے مہربانی اس ضمن میں نظرثانی کی جائے تا کہ پرائیویٹ سکولز کے مسائل حل ہو سکیں۔