اسلام آباد(خصوصی نمائندہ) سینٹ خصوصی کمیٹی برائے گردشی قرضوں کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر شبلی فراز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ کمیٹی کے اجلا س میں گردشی قرضوں کے بارے میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ جوائنٹ سیکرٹری پاور ڈویژن فنانس نے کمیٹی کو بتایا کہ 650میگاواٹ نیشنل پاور گرڈ بجلی کے الیکٹرک کو فراہم کرتی ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ مارچ سے جولائی 2018تک بجلی کی پیداواری لاگت 8.52روپے فی یونٹ جبکہ صارف کیلئے 11.9روپے فی یونٹ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت فاٹا کو 14.2بلین روپے ، آزادجموں کشمیرکو 52.44بلین روپے جبکہ صنعتی شعبوں کو 31.4بلین روپے کی سبسڈی دیتی ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ سال 2013-18تک کے الیکٹرک کے گردشی قرضے 573بلین روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ رننگ ڈیفالٹر348بلین روپے ہیں۔ کنونیئر کمیٹی نے کیسکو حکام کی اجلاس میں عدم شرکت پر نوٹس لیتے ہوئے اگلے اجلاس میں طلب کرلیا۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ بلوچستان میں ٹیوب ویل پر سولر سسٹم فراہم کیا جائے تاکہ بڑھتی ہوئی بجلی کی طلب کو کم کیا جا سکے۔ لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ایم ڈی پیپکو نے کمیٹی کو بتایا کہ ملک میں کل 8631فیڈرز ہیں۔ جنہیں مختلف کیٹگریزمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایم ڈی پی ایس او نے کمیٹی کو بتایا کہ 3سو ارب روپے کا گردشی قرضہ ہے جس کی وجہ سے ادارے کی کارکردگی پر اثر پڑرہا ہے ۔ ایم ڈی پی پی آئی بی نے ادارے کے کام اور کارکردگی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا کہ بجلی کے حوالے سے نجی اداروں کو پی پی آئی بی حکومت کی طرف سے سہولت کار کا کام کرتا ہے۔ 15ہزارمیگاواٹ بجلی پی پی آئی بی کے ذریعے آئی ہوئی ہے۔ کنونیئر کمیٹی نے ہدایت کہ بجلی چوری کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں اور ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔