کیا ہم یہیں کھڑے رہیں گے؟

1992ء میں بھارت کس مقام پر تھا۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل اسلامی مفکر مولانا وحیدالدین خان اپنی کثیر الاشاعت تالیف ’’کتاب زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’جولائی اگست 92ء کے درمیان بارسلونا (سپین) میں اولمپکس کے مقابلے ہوئے، اس میں 71 ملکوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 64 ملکوں نے مختلف کھیلوں میں اعلیٰ کارکردگی دکھا کر تمغے حاصل کئے۔‘‘ مولانا اس پرتبصرہ کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں ’’یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ جولوگ بیرونی دنیا کا سفر کرتے ہیں‘ یا جن کی عالمی حالات پر نظر ہے‘ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر آج ہندوستان کی کوئی اہمیت نہیں۔ مثلاً بڑے صنعتی ملکوں کی فہرست میں ہندوستان کا نام آخری سطروں میں بھی نہیں ملتا۔ جدید سائنسی ریسرچ میں ہندوستان سرے سے قابل تذکرہ نہیں سمجھا جاتا۔ ہندوستان کے تعلیمی ادارے اپنے معیار کے اعتبار سے سب سے کم تر حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ مولانا آگے لکھتے ہیں ’’اس پچھڑے پن کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب وہی ہے جس کی طرف ایک مبصر نے ان الفاظ میں اشارہ کیا کہ’’ لوگوں کے دماغ ناقابل لحاظ چیزوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ وہ وقت کے اصل قابل لحاظ مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔‘‘
یہ طویل اقتباس صرف یہ بتانے کیلئے دیا گیا ہے کہ وہ بھارت جو آج دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے‘ اور ایک ایسی جمہوریت ہے جس پر معقولیت پسندوں کی بجائے شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔ آج سے 25 سال پہلے پاکستان سے بھی پیچھے تھا مگر آج ہم اس سے بہت پیچھے ہیں۔ عروج و زوال‘ مقدر میں نہیں لکھے ہوئے۔ تقدیر‘ قومیں خود لکھتی ہیں۔ پاکستانی معیشت 60ء کے عشرے میں بہت تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ لیکن پھر ہنگاموں‘ دھرنوں‘ ہڑتالوں اور 34‘ 34 میل لمبے جلوسوں‘ بیان بازیوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں بنایا ہوا بھی گنوا لیا۔ بطور اصول مان لیا گیا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے‘ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ سنگاپور نے لی کیوان یو‘ اور جنوبی کوریا نے چنڈوہان کی طویل آمریت کے دور میں ترقی کی۔ خود سوویت یونین اور چین نے اشتراکیت کے دور میں ترقی کی۔ دوسری طرف یورپی ممالک جاپان‘ امریکہ اور بھارت نے جمہوریت کے باعث ترقی کی۔
جلسے جلوس اور ہڑتالیں صنعتی ترقی کیلئے بریکیں ہیں اور ہم آج انہی عوامل کے نتائج بھگت رہے ہیں۔نظر آرہا تھا برسوں پہلے کہ ایک نہ ایک دن عمران خان اور ان کی جماعت ضرور اقتدار میں آئے گی۔ بڑے بڑے جلسے‘ مایوس عوام انہیں نجات دہندہ کی شکل میں دیکھنے لگے۔ وہ خود بعض بشری کمزوریوں کے باوصف ایماندار سمجھے جاتے تھے۔ مایوس عوام نے ان سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لیں۔ انہیں عوام کی حمایت کیساتھ ساتھ ملک کی خیرخواہ قوتوں کی بھی تائید حاصل ہو گئی، چونکہ حالات ان کے حق میں سازگار ہو رہے تھے لہٰذا انہیں ملک چلانے کیلئے تیاری کرنی چاہئے تھی مگر انہوں نے دستیاب ہوئے مواقع کومفروضہ دھاندلی کیخلاف تحریک چلانے‘ دھرنوں‘ جلسوں اور جلوسوں میں ضائع کر دیا۔ ان کے حق میں حالات کس قدر سازگار تھے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا سب سے طاقتو اور مقبول حریف‘ کاغذ کے ایک پرزے کی بنا پر ہمیشہ کیلئے سیاست بدر کر دیا گیا۔( کاغذ کے پرزے پر ایسے فیصلے کی دنیا کی تاریخ انصاف میں مثال نہیں ملتی) مختصراً یہ کہ اگر تیاری کی ہوتی‘ ہوم ورک کیا ہوتا تو 18 اگست 2018ء میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ہاتھ پائوں نہ پھولتے۔ انہیں علم ہوتا کہ ایوان وزیراعظم میں داخل ہوتے ہی پہاڑوں جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن انہوں نے اسے بڑا ایزی لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کا کوئی ساتھی بھی اپنا کردار ادا کرنے کا اہل نہیں تھا حتیٰ کہ ’’ماہراقتصادیات‘‘ بھی۔ جب باگیں ہاتھ سے نکلتی نظر آئیں تو پھر ٹیکنوکریٹ اگلی صف میں لانا پڑا۔ یہ اس جماعت کی حالت تھی جس نے ریکارڈ جلسے کئے۔ جس نے ایک مفروضے پر تاریخ کا طویل ترین دھرنا دے ڈالا۔
جلسوں میں کی گئی مبالغہ آمیز تقریروں نے عوام کی امیدوں کو غیرمعمولی طورپر بڑھا رکھا تھا۔ ہر کوئی آس لگا بیٹھا کہ تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی ’’چوروں‘ ڈاکوئوں اور لٹیروں‘‘ کی لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے گی اور ایک دو ماہ میں سوئس بنکوں میں پاکستانیوں کے پڑے دو سو ارب ڈالر بھی مل جائیں گے۔ 95 ارب ڈالر کے غیرملکی قرضے ادا کرنے کے بعد 105 ارب ڈالر بچ جائیں گے۔ جنہیں نحیف و نزارمعیشت کو توانا اور خود کفیل بنانے پر صرف کیا جائے گا اور اس کے بعد دیگر وعدوں بالخصوص ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ کی تکمیل چنداں مشکل نہیں رہے گی۔
مگر ووٹرز کے خواب جس طرح چکنا چور ہوئے اور مایوسی پھیلی‘ حکمرانوں کو شاید اس کا اندازہ نہیں۔ غلطی کرنا انسانی سرشت ہے لیکن غلطی کر کے نہ ماننا، ناقابل معافی ہے۔ تحریک کے رہنما سائنسی بنیادوں پر ہوم ورک کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں ایسے معمولات پر ضائع کرتے رہے جو صلاحیتیں برباد کرنے کے مترادف ہے۔
یہ تحریر حکومت کے لیے پندنامہ نہیں بلکہ کروڑوں ہم وطنوں کی طرح وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کے طالب کی آرزو ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا یہ بھی جان لیں کہ بھارت 92 کی دلدل سے کیسے نکلا؟ بتایا گیا کہ وزیر اعظم نرسیما رائو نے 46 ویں یوم آزادی کی تقریروں میں اہل وطن کومشورہ دیا کہ نزاعی اُمور کو تین سال کے لیے التوا میں ڈال دیں‘‘ چنانچہ ہند کے اہل سیاست نے اس پر عمل کیا۔ (باقی آئندہ)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...