ایک بیانیہ شہداء کا ہے !!!!

سوشل میڈیا دیکھ رہا ہوں، اندرون و بیرون ملک میڈیا پر ہونیوالی سرگرمیاں دیکھ رہا ہوں، کچھ اپنے لوگوں کی باتیں سن رہا ہوں، کچھ غیروں کے تیور دیکھ رہا ہوں، کچھ اپنوں کے ذاتی و منفی جذبات محسوس کر رہا ہوں، کچھ غیروں کے چہرے پر خوشی دیکھ رہا ہوں، کچھ اپنی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے سیاسی بیانات پڑھ رہا ہوں، کچھ ان کے انداز سمجھ رہا ہوں، کچھ انکی تکلیف محسوس کر رہا ہوں، کچھ اس تکلیف کی وجہ تک پہنچ رہا ہوں، کچھ ان کی منفی سیاست محسوس کر رہا ہوں، کچھ انکی موقع پرستی دیکھ رہا ہوں، کچھ لکھاریوں کا تعصب دیکھ رہا ہوں، کچھ مورخین کے خیالات سمجھ رہا ہوں۔
ہم نے اپنے اردگرد کیا کچھ نہیں دیکھا، ہم اپنے اردگرد کیا کچھ نہیں دیکھ رہے، ہم کئی برسوں سے یہ طرز سیاست دیکھ رہے ہیں، یہ طرز تحریر سمجھ رہے ہیں، ہم کئی برسوں سے بدلتے چہرے دیکھ رہے ہیں، ہم کئی برسوں سے بدلتی وفاداریاں دیکھ رہے ہیں، ہم کئی برسوں سے وقت کے ساتھ، طاقت اور اقتدار کے ساتھ بدلتے خیالات والوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اس عرصے میں ہم نے کیا نہیں دیکھا، سیاست دانوں کی موقع پرستی دیکھی ہے، ریاست کے ملازمین کی حقائق سے چشم پوشی دیکھی ہے، خوشامدیوں کو خوشحال ہوتے دیکھا ہے، کلمہ حق کہنے والوں کو دیوار سے لگتے دیکھا ہے، ہم نے بدلتے موسم دیکھے ہیں، بدلتے چہرے دیکھے ہیں، بدلتے انداز دیکھے ہیں، بدلتے خیالات دیکھے ہیں۔ ان بدلتے موسموں میں، بدلتے انسانوں میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو روز اول سے قائم و دائم ہیں، انکی روشنی پھیل رہی ہے، وہ چمک دمک رہی ہیں، وہ پھل پھول رہی ہیں۔
وہ چیزیں بدلی ہیں نہ بدلیں گی۔ انکی شناخت کا قائم رہنا، انکا نہ بدلنا ہی ملک کی بقا کی ضمانت ہے، انکا نہ بدلنا ہی ہماری سلامتی کی ضمانت ہے، انکا نہ بدلنا ہی ہمارے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ یہ قائم و دائم میری افواج کی وطن سے محبت ہے،یہ میری پاک فوج کے جوانوں کی پاک سر زمین سے محبت ہے جو روز اول سے آج تک قائم ہے، یہ غیر مشروط محبت ہے، یہ لازوال محبت ہے، یہ قائم رہنے والی محبت ہے، یہ مفادات سے بالاتر رشتہ ہے، یہ دھرتی سے خون کا رشتہ ہے، اپنی زمین سے وفا کا رشتہ ہے۔ یہ رشتہ زندگی کی سانس سے ختم ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی نئی نسل اسے دوبارہ جوڑ دیتی ہے، میرے جوانوں کی دھرتی ماں سے محبت سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے افواج پاکستان پر اندرونی اور بیرونی طور پر حملے ہو رہے ہیں۔ کیسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فوج کی ساکھ کو خراب کرنے اور اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیسے غیر ضروری سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور بیرونی میڈیا ایک خاص ایجنڈے کے تحت اس بیانیے کی تشہیر میں اپنا کردار ادا کرنے میں مصروف ہے۔
جس کو جو کام دیا گیا ہے وہ کر رہا ہے، کیا کبھی ان لوگوں نے لگ بھگ دو دہائیوں میں ہزاروں شہداء کو ایسے کوریج دی ہے، کیا کبھی غیر ملکی میڈیا نے ان شہداء کے خاندانوں سے بات کی ہے، کیا کبھی ان درد مندوں کو ان کا خون نظر آیا ہے، کیا کبھی آزادی اظہار کے علمبرداروں کو شہداء کے لواحقین کے خیالات دنیا تک پہنچانے کا وقت ملا ہے، وہ شہداء جن کا تعلق افواج پاکستان سے تھا، جن کا تعلق رینجرز سے تھا جن کا تعلق پولیس سے تھا، وہ شہداء جو ہمارے شہری تھے، نہتے تھے، معصوم تھے، بچے تھے، خواتین تھیں، وہ جو اپنے خاندانوں کا واحد سہارا تھا یہ آزادی اظہار کے علمبردار اور باہر بیٹھے پاور پلیئرز انکو یہ معصوم کبھی نظر کیوں نہیں آئے، کیا ان کی قربانیوں کی کوئی وقعت نہیں، کیا یہ قوم کے ہیرو نہیں ہیں، کیا ان کی خاموشی تمام حقیقت بیان نہیں کرتی، اگر کوئی ان کی قربانیوں کی اہمیت کو نہیں سمجھتا، ان کی قربانیوں کی قدر نہیں کرتا تو اس سے بڑا متعصب کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن بد قسمتی ہے کہ دنیا کو ان معصوموں، ہمارے شہدا کے بجائے ان نفرت پھیلانے والوں میں دلچسپی ہے جو ان کے آلہ کار بنتے ہیں، جو ان کے مکروہ کھیل کا حصہ بنتے ہیں، جو ان کے بیانیے کی تشہیر کرتے ہیں۔
دشمنان پاکستان جان لیں، ایک بیانیہ ان شہدا کا ہے، ان شہدا کا بیانیہ یہ ہے کہ ملک کے چپے چپے کی حفاظت کے لیے خون کا آخری قطرہ بھی بہا دیا جائے گا، ان کا بیانیہ یہ ہے کہ کوئی شخص ریاست سے بڑا نہیں، ان کا بیانیہ یہ ہے کوئی شخص ریاست سے اہم نہیں، ان کا بیانیہ یہ ہے کہ ہم ریاست کے چوکیدار ہیں، ہم پہرہ دے رہے تھے، دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔ اس راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا، اس راستے میں منفی مہم چلانے والوں کو راستہ نہیں دیا جا سکتا۔
زیادہ دور نہ جائیں گذشتہ پندرہ سال کے دوران ملک میں امن و امان کی بحالی میں افواج پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہے۔ سوات سے وزیرستان تک امن کی بنیادوں میں فوج کے جوانوں کا خون ہے، امن کی منزل میں ہزاروں شہدائ￿ کے جسد خاکی ہیں، امن کے راستے میں جگہ جگہ شہداء کی قبریں ہیں۔ یہ پرسکون ماحول یہ آزاد فضاؤں میں سانس اس کے پس منظر میں برسوں کی محنت اور ہزاروں جوانوں کی شہادتوں کی تاریخ ہے۔ کیا وزیرستان میں امن کے لیے افواج پاکستان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی ہیں، کسی سے کم ہیں، یا پھر اس سفر میں انہوں نے کہیں کمی چھوڑی ہے، فوج کے جوانوں نے ملک کے نوجوانوں کو محفوظ وزیرستان دینے کے لیے قیمتی خون کی قربانی دی ہے، فوج کے جوانوں نے سوات کو پرامن بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، قوم کے بچوں نے، قوم کی ماؤں نے، قوم کی بہنوں نے، قوم کی بیٹیوں نے، قوم کے بیٹوں نے اپنا خون دے کر ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کا سفر طے کیا ہے۔ اس سفر کو خراب کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے، اس تاریخ کو دھندلانے کی مہم کا مقصد کیا ہے، اس امن کے سفر میں رکاوٹیں کون کھڑی کر رہا ہے، پر امن پاکستان کا دشمن کون ہے، ہم پہلے بھی بتا چکے آج پھر یہ سوال اپنے پاکستانیوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ تمام کردار بے نقاب ہوتے جائیں گے، حقیقت کھلتی جائے گی اور سمجھ آتی جائے گی۔ آپ نظر رکھیں، ہوشیار رہیں، اردگرد سے باخبر رہیں اور ہر موقع پرست کے سامنے تاریخ کا سبق رکھ کر اپنا فرض ادا کرتے جائیں۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے چوراہوں میں، سڑکوں پر کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ کیسے ذاتی مفادات کے لیے سیاست دان کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں، ان کے ماضی کے بیانات پڑھ لیں، آج کے کے خیالات سن لیں آپکو کہیں پائیداری نظر نہیں آئے گی، آپکو کہیں مستقل مزاجی نظر نہیں آئے گی، یہ وقت کے ساتھ اپنے مفادات کے لیے وفاداریاں بدلتے رہے ہیں،۔ جو اس ملک کے محافظ ہیں ان کا کل بھی مقصد ایک تھا آج بھی مقصد ایک ہے اور کل بھی مقصد ایک ہی ہو گا، وہ خون دیں گے اور وطن کی حفاظت کریں گے۔ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ ملک دشمنوں کو منہ کی کھانا پڑی گی۔ پاکستان ترقی کرے گا، پاکستان آگے بڑھے گا، پاکستان قائم رہے گا، پاکستان فلاحی ریاست بنے گا، اقبال کے خواب کو تعبیرملے گی، قائد کا مقصد پورا ہو گا، عوام کی دعائیں رنگ لائیں گی اور پاکستان کے مسائل حل ہونگے، چور، ڈاکو لٹیروں سے ملک کو حقیقی آزادی نصیب ہو گی اور اس آزادی تک ہم اور آپ یہ جنگ لڑتے رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن