1 / مئی 1998ء کو بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کر دئیے گئے۔ ان ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد بھارت کی برسراقتدار سیاسی قیادت نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی۔ پاکستان اور بالخصوص پرستارانِ توحید کے خلاف بھارت کی کٹر بنیاد پرست شدت پسند ہندو قیادت کی سوچ کا انداز ہی جارحانہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنی ایٹمی قوت کے زور پر اکھنڈ بھارت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا دیکھنا شروع کر دیا۔ یہی وہ دن تھے جب پاکستان میں دنیائے صحافت کے شیردل صحافی مجید نظامی نے ملک کی برسرِاقتدار قیادت کو بڑی جرأت کے ساتھ حوصلہ اور ہمت سے اپنا قومی فرض ادا کرنے کا احساس دلایا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ مجید نظامی نے جس مقصد کیلئے اپنے زیر ادارت نوائے وقت کو وقف کر دیا وہ نامساعد ملکی حالات کے ہوتے ہوئے ملک کو بھارت ایسے ازلی دشمن کے مقابلے میں ناقابلِ تسخیر ملک بنانے کی مہم تھی۔ انہوں نے اپنے اداریوں میں بھارت کے پاکستان دشمن عزائم کا پردہ ہی چاک نہ کیا بلکہ ایسے مذموم عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے جوابی ایٹمی دھماکے کے مطالبے کو عوامی تحریک کی شکل دیدی۔ بالآخر انکی کوششیں رنگ لائیں۔ انکے مؤقف کی زبردست پذیرائی ہونے لگی۔ مجید نظامی کی ہدایات کیمطابق نوائے وقت میں جلد از جلد ایٹمی دھماکے کرنے کے عوامی مطالبے سے عبارت خبروں کو نمایاں طور پر شائع کرنا شروع کر دیا گیا جن کا لب لباب یہ ہوتا کہ پاکستان اب ایٹمی دھماکہ کرنے میں تاخیر نہ کرے۔ اسی حوالے سے انہوں نے /16 مئی 1998ء کو اپنے اداریہ کو یہ عنوان دیا:۔
’’بھارت کے ایٹمی دھماکے ، امریکہ اور پاکستان ‘‘
وزیر اعظم تاریخی موقع ضائع نہ کریں‘‘
اس اداریہ میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں لکھا کہ بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ اور اسکے حواریوں نے جو شور مچایا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ دم توڑ رہا ہے اور یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت کو امریکہ اور یورپ کی درپردہ تائید و حمایت حاصل ہے یا اس حوالے سے وہ بھارت کو تنگ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ اسی اداریہ میں اس نڈراور بیباک صحافی نے آگے چل کر لکھا۔ ’’پاکستان میں ایک ایسی لابی موجود ہے جو احتیاط اور صبر و تحمل کے نام پر حکومت کو امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے اور قوم کو بھارت کی بالادستی تسلیم کرنے کا مشورہ دے رہی ہے۔ آج آزمائش کی گھڑی میں وزیراعظم میاں نواز شریف بھی ہر طرح کی مصلحتوں دبائو اور دھمکیوں کو بالائے طاق رکھ کر قوم کو احساسِ تفاخر اور ایقانِ تحفظ فراہم کریں تاریخ انہیں کبھی بھلا نہ پائے گی۔
جناب مجید نظامی ہی کے رشحاتِ قلم کا اعجاز تھا کہ ملک کے صف اول کے تمام سیاستدانوں کی طرف سے فوری طور پر ایٹمی دھماکے کرنے پر زور دیا جانے لگا۔
اسکے برعکس بھارت کی سیاسی قیادت کا جارحانہ انداز تکلم کا کچھ یوں بگڑ چکا تھا کہ 18 مئی 1998ء کو بھارتی وزیر داخلہ لال کرشن ایڈوانی نے دہلی میں اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کشمیر کے بارے میں اپنی پالیسی ’’رول بیک‘‘ کرے۔
تاریخ کی یہ انمٹ حقیقت ہے کہ جب تنہا مجید نظامی بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کی تحریک استحکام پاکستان کا پھریرا لہرانے جا رہے تھے ایسے میں جبکہ نوائے وقت کے صفحات پر خبروں کی ترتیب و تزئین میں قومی مقصد کے حصول کی خاطر وہی انداز اختیار کیا گیا جو تقسیم برصغیر سے قبل انگریز اور ہندو بنیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تحریک پاکستان کے دوران اپنایا گیا تھا پھر تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد بحالی ٔ جمہوریت کیلئے ہونے والی ہر جمہوری تحریک کے ایام کی طرح ایٹمی دھماکہ کرانے کی تحریک میں بھی نوائے وقت کو غیروں کے علاوہ ارباب اقتدار کے نادان دوستوں کی طرف سے پیدا کردہ رکاوٹوں سے واسطہ پڑا۔ ان میں کچھ عناصر وہ تھے جنہیں بھارت کے سکھوں اور ہندوئوں کی زلف گرہ گیر نے اسیر کر رکھا تھا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو بوجوہ خود کو ایوان اقتدار کے اعضاء و جوارح ہونے کے دعویدار تھے۔ انہی میں سے ایک قومی روزنامہ کے مستقل کالم نگار تھے۔ انہوں نے روزنامہ جنگ میں 13 مئی 1998ء کو شائع شدہ اپنے کالم میں ایٹمی دھماکہ کے خواہاں محب وطن پاکستانیوں کیلئے واجپائی ہونے کی پھبتی کسی۔ اس کالم میں انہوں نے پاکستان واجپائیوں سے خبردار کے عنوان سے لکھا:
’’…پاکستانی قیادت کو جذبات میں نہیں آنا چاہئے۔ طعنوں اور پھبتیوں کو نظرانداز کرکے سوچ سمجھ کر اقدام کرنا چاہئے۔ ایٹمی دھماکوں کا فوری جواب ایٹمی دھماکوں سے دینا دانش مندی نہیں۔‘‘
موصوف نے آخر میں یہ الفاظ سپرد قلم کئے۔
’’پاکستان نے اگر فوری ایٹمی دھماکہ کر لیا تو یہ بھارت کے مفاد میں ہوگا۔اس لئے مشتعل ہوکر کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو ہمارے مفادات کو نقصان پہنچا دے، جذبات کے تاجروں سے ہوشیار رہیے اور پھونک پھونک کر قدم بڑھائیے۔
اس عہد ساز اخبار نویس ڈاکٹر مجید نظامی کی وضعداری کا عالم ملاحظہ ہو کہ استحکام پاکستان کے نام سے ایٹمی دھماکے کرنے کی جس تحریک کی بنیاد اٹھائی اور اسے منزل مراد تک پہنچانے کی جان توڑ جدوجہد میں مصروف تھے۔ اس خاکسار نے ایٹمی دھماکے اور نوائے وقت کے عنوان سے کتاب لکھی تو مسودہ پڑھ کر فرمایا اس کالم نگار کا نام نہ دیں مگر تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنے کیلئے ’’اسکے نام کی بجائے مستقل کالم نگار کے نام سے اسکے رشحات قلم کا حوالہ ضرور دیں۔
سوک سنٹر آڈیٹوریم کراچی میں 24 مئی 1998ء کو ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے جب ڈاکٹر مجید نظامی نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے دھماکہ نہ کیا تو قوم ان کا دھماکہ کردیگی … انکی تحفظ پاکستان کی تحریک کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں کو شرمندگی کے سوا کچھ نہ ملا۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے ایٹمی دھماکے کے حوالے سے پہلی تصنیف ’’ایٹمی دھماکے اور نوائے وقت‘‘ کی تقریب رونمائی الحمرا میں وزیراعظم نوازشریف سے کرائی تھی۔