جس دن میں نے پہلی بار خود پٹرول ڈلوایا میری نظر میٹر سے ہٹی ہی نہیںتھی۔ ایک پیسہ بھی اوپر اور ایک قطرہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئیے۔جس دن پہلی بار خود پھل خریدے اس دن ایک ایک پھل جانچا سونگھ کر پرکھا۔ اس دن یہ احساس ہوا کہ جب تک ابا اپنی جیب سے ہمارے لئے پیسے نکالتے رہے ۔۔میں نے خود کبھی میٹر نہیں دیکھا اور گاڑی چلتی رہی۔۔پھل آنکھیں بند کر کے کھا لئے۔ہمیشہ شیریں نکلے۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ دنیا اپنے آپ چل رہی ہے۔۔ صبح ہو گی ۔۔ اماں بہترین لنچ بیگ میں ڈال دیں گی اور ہم سکول پہنچ جائیں گے ۔۔ لگتا تھا کہ ابا کہیں کے بادشاہ ہیں اور ہم شہزادے۔۔۔۔
اس دن میں نے اس پھل فروش کی پسینے سے بھیگی کمر دیکھی جو کچھ پیسے اپنے ننھے بچے کو آئس کریم کھانے کے لئے نکال کر دے رہا تھا تو احساس ہوا کہ بابا بننا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔یہ جو بابا ہوتے ہیں یہ سبھی پسینہ بہا کر گھر آتے ہیں لیکن ہم کبھی ان کی بھیگی کمر دیکھ ہی نہیں پاتے۔
آج سکول کے باہراپنے بیٹے کا انتظار کرتے ہوئے میرے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمودار ہونے لگیں۔۔ یکدم دور سے میرا ننھا پھول بھاگتا ہوا آکر مجھ سے لپٹ گیا۔ پھر اس نے نان سٹاپ سکول کی کہانیاں سنانا شروع کر دیں۔ میں نے چپکے سے اپنے ہاتھوں سے اپنا پسینہ صاف کیا اوراس کی طرف متوجہ ہو گیا۔ آج مجھے یاد آیا کہ بابا کے ہاتھ اکثر نم کیوں رہتے تھے ۔میرا دل کیا کہ کاش ایک بار صرف ایک بار میں مڑ کر بابا کی بھیگی کمر بھیگا ماتھا دیکھتا اور اپنی ننھی انگلیوں سے ان کا پسینہ پونچھ دیتا ۔ کاش کبھی تومیں ان کے لئے اپنے ہاتھ نم کرتا ِ۔
ابا کا پسینہ
May 30, 2020