دنیا بھر میں قارئینِ نوائے وقت موجود ہیں وہ بذریعہ ای میل اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، قارئین کی طرف سے واٹس ایپ میسجز بھی ملتے ہیں۔ کہیں کہیں سخت ردعمل بھی آتا ہے، حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ نوائے وقت کے صفحات کا حق ادا کرنا مشکل ہے لیکن اس بارے ہر روز کوشش ضرور کی جاتی ہے۔ میں قارئین نوائے وقت کی حوصلہ افزائی کا مشکور ہوں۔
آج کے کالم میں معزز قارئین کی ای میلز شامل کر رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ اسی طرح حوصلہ افزائی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
لندن سے چودھری اقبال الدین احمد لکھتے ہیں قابل صد احترام جناب چودھری محمد اکرم صاحب، ہمارے’ چک۔مکوڑی، کے سروں کے تاج،یہ امید کرتے ہوئے کہ اپنی والدہ محترمہ کی جدائی کے غم سے افاقہ محسوس کر رہے ہونگے۔چودھری صاحب آپنے بالکل بجا فرمایا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ حکمران ہر دور میں مالی مدد سے غربت کم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ دراصل ہمیں لوگوں کو تعلیم یافتہ اور ہنر مند بنانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں لوگوں کی بڑی تعداد کو خیراتی پیسوں سے نکال کر ان کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں۔ چودھری صاحب! دسویں تک فیس معاف، اسکے بعد اسلامیہ کالج، لاہور،ایف ایس سی کی فیس کوئی نہ دے سکتا تھا اور اللہ کی مدد سے ۱۶ سال کی عمر سے کراچی میں کام اور تعلیم۔ لاہور، کراچی سے ہوتے، لندن’ آکسفورڈ،آلڈرڈر شاٹ، ہڈرز فیلڈ میں کام کرتے اسی طرح ان اداروں سے گزرا اور وہاں سے ڈگری حاصل کی جہاں سے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے حاصل کی تھی چونکہ ‘چک مکوڑی، سے تھا اس لئے مجھے تو فائدہ نہ ہوا لیکن تعلیم کی روایت بنادی اور اب پاکستان میں کوئی لڑکا یا لڑکی ایم اے سے کم نہیں اور لندن میں بیرسٹر،سالیسٹر ز،ماسٹر آف لا یا سکولوں میں اساتذہ سے کم نہیں ہیں۔ یہاں پر ۱۸سال کی عمر تک یعنی ‘اے لیول’ تک صرف تعلیم ہی مفت نہیں بلکہ ۱۰/۱۵ پونڈ فی ہفتہ فی بچہ ‘چائلڈ بینفٹ’ بھی ملتا ہے۔اگر کام صلاحیت کے مطابق نہ ملتا ہو تو ‘ان ایمپلاٰئمنٹ بینیفٹ سیدھا بینک میں، معاف کرنا آپ کا وقت لیا۔
اقبال الدین احمد ملکی تاریخ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں، تحریک پاکستان سے قیام پاکستان کا سارا سفر ان کے سامنے ہے۔ نوائے وقت کے قاری ہیں، لندن رہ کر بھی دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ یہاں ہونے والے واقعات پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی تکلیف پر دکھی ہوتے ہیں۔ ان کے بزرگوں نے پاکستان حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج وطن عزیز کے حالات پر دکھی ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بہت بڑے بڑے مسائل کا سامنا ہے سب سے بڑا مسئلہ انسانوں کے معیار کا ہے۔ انسانی معیار کو بلند کیے بغیر کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی بدقسمتی سے اس اہم ترین مسئلے کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا کچھ بھی کر لیں جب تک اچھے انسان نہیں ہوں گے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اچھے لوگ ہوں گے تو کم وسائل میں بھی بہتری کا سفر شروع ہو سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو بھلے جو مرضی کر لیں، جتنی چاہیں ٹیکنالوجی سے مدد حاصل کر لیں کوئی تبدیلی یا بہتری نہیں آ سکتی۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی کارکن عرفان احمد لکھتے ہیں چودھری صاحب امید ہے آپ خیریت سے ہونگے۔ آپ کے کالم باقاعدگی سے پڑھتا ہوں، کبھی کبھار اپنی رائے بھی دیتا ہوں۔ آپ نہ تو حکومت کے حمایتی ہیں اور نہ ہی اپوزیشن کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلاتے ہیں۔ سائرن کی سب سے خاص بات عوامی مقدمات کو ترجیح بنانا ہے۔ لکھتے ہیں بہت اعلیٰ چودھری
کالم کی شروعات ہی شاندار ہے، وزیراعظم کا جملہ اور نوائے وقت کی لیڈ سٹوری حسین امتزاج ہے۔ مرغیوں میں تو وائرس کی خبر سے گوشت سستا کروا دیا ہے۔ چھوٹے، بڑے گوشت میں بھی کچھ ڈلوا کر، ان قصابوں کو بھی قابو کریں...!
1500 روپے کلو... عام بازار میں 1450 روپے کلو.. لیکن کلو میں سے الائش نکال کر اور اگر قصاب بھائی کو کہہ دیں کہ بھائی اب اسکو وزن کر دیں تو آنکھیں کھول کر،. آواز بلند اور گفتگو کا ہتھوڑا ایسا مارتے ہیں کہ گاہک بدک جاتا ہے۔ یہودیوں کی اشیائے ضرورت و خوردنی پہ پابندی لگانے کا احتجاج کرنے والوں کو یہ بھی کوئی سمجھا دے کہ کیا گارنٹی ہے کہ ھمارا مسلم بھائی دودھ خالص، گوشت بغیر پانی والا اور دیگر مشروبات و خوراک خالصتا"، عوام کو دے گا۔ بے ایمانی نہیں کریگا..؟؟ اغیار کے نظام کو ختم کریں لیکن اپنا بھی تو کوئی نظام وضع فرمائیں۔چودھری صاحب میں جو کچھ سوچتا ہوں وہ کبھی آپکی قلم کی نوک کی زینت بن جاتا ہے اور پھر مجھے آپ پر فخر محسوس ہوتا ھے کہ آپ ہمارے ساتھی ہیں۔ الحمداللہ، اللہ تعالیٰ صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
عرفان احمد کا شمار میرے دیرینہ دوستوں میں ہوتا ہے۔ یہ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی کارکن ہیں صدر بازار میں پاکستان تحریکِ انصاف کے پہلے جلسے کے انتظامات عرفان احمد نے کیے تھے۔ محب وطن اور بے لوث سیاسی کارکن سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف اس لحاظ سے بدقسمت جماعت ہے کہ انہوں نے اپنی بانی اراکین کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا، بانی کارکنوں کی اکثریت بے لوث تھی۔ ان لوگوں کو عہدوں، پروٹوکول اور مراعات کی ضرورت ہرگز نہیں تھی بلکہ وہ ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ یہ باصلاحیت بھی تھے لیکن ایسے بہت سے مخلص افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔
خلیل الرحمٰن لکھتے ہیں چودھری صاحب السلام علیکم، سر پاک وطن کے شروع کے دو چار کو چھوڑ کر آج تک جو بھی آیا اس نے ہمارا نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنا اور اپنی نسل کی بھلائی کاسوچا ہے۔ ایسے لوگ اس وقت تک آتے رہیں گے جب تک ھم خود کو اس راہ پہ نہیں لاتے جس پر آنے کا ہمیں اللہ اور پیارے نبیؐ نے حکم فرمایا ہے سر آج ہم سب کو دوسروں کی آخرت اور اپنی دنیا کی فکر ہے۔ جب ہمارا کامل ایمان ہے کہ اللہ تعالی کے نبیؐ کی تعلیمات پر عمل کیے بنا دونوں جہاں میں سکون نہیں پا سکتے تو پھر باقی کو چھوڑیں ہم خود کو سیدھی راہ پر کیوں نہیں لاتے، ھم اپنے مکمل ضابطہ حیات سے اس قدر دور اور لا علم ہو چکے ہیں کہ اپنے ازلی دشمنوں کی باتوں پر فوراً عمل شروع کر دیتے ہیں لیکن اللہ اوراس کے برحق نبیؐ کے احکامات پر بحث مباحثے میں پڑھ جاتے ہیں۔ میری ادنیٰ سی سوچ کے مطابق جب تک ہم خود کو نہیں بدلتے ہم کسی غیر کو خاک بدلنا ہے۔سائرن سے کسی بھی طرح منسلک ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم آج سے ہی اسلام کے مطابق اپنی اپنی زندگیاں گذاریں گے۔اللہ تعالیٰ آپکی میری اور ہمارے پیاروں کی جنتوں کو اپنی رحمتوں میں رکھے۔ آمین
قارئین کسی بھی اہم مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ آپ کی ای میلز کو کالم کا حصہ بنایا جائے گا۔ معاشرتی مسائل، بالخصوص تعلیم اور صحت کے حوالے سے کہیں مسائل ہیں تو لکھ بھیجیں۔