بھارت میں مذہبی آزادی کی صورت حال دن بدن ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کیخلاف ہندئوں کا بغض تو سب کو معلوم ہے مگر اب وہاں سکھ، عیسائی اور یہاں تک کہ نچلی ذات کے ہندوئوں پر تشدد سیاست اور بی جے پی کے,,حسن سلوک ،، سے محفوظ نہیں۔ سب سے بڑی جمہوریت کی حامل ریاست میں مذہبی آزادی پر دنیا بھر میں تشویش دیکھی اور محسوس کی جا رہی ہے۔ امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی سالانہ رپورٹ نے بھارتی سیکولرازم کا بھانڈا پھوڑ ڈالا۔ رپورٹ کے مندرجات پڑھنے کے بعد حقیقت سامنے آئی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر اقلیتیں کن حالات اور کن مشکلات میں زندگی گزارتے پر مجبور ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قوم پرست پالیسیوں سے مذہبی آزادی کی مسلسل خلاف ورزیاں ہورہی ہیں مسلمانوں کے خلاف ہندو انتہا پسندوں کے تشدد بڑھ رہے ہیں مذہبی امتیاز پر مبنی شہریت ترمیمی ایکٹ سے اقلییتیں حد سے زیادہ پریشان ہیں۔ مودی حکومت شہریت کے متنازعہ قانون کو مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے مذہب کی جبری تبدیلی کی بابت شکایات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف بھارتی پارلیمان نے مذہبی آزادی کے لئے سر گرم تنظیموں پر مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔یہ درست ہے کہ پاکستان ایک عرصے سے دنیا کی نظر میں فلسطین اور مقبوضہ کشمیر پر اپنا کر دار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ سے بار بار ہندوستانی اقلیتوں سے نارواسلوک کا تذکرہ کرتا رہا ہے 26 مئی 2021 کو تین روزہ دورے پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے صدر وولگان بوزگر پاکستان پہنچے۔ صدر عارف علوی ،وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہد محمو قریشی اور دیگر پاکستانی حکام سے ملاقاتیں کیں جس میں مہمان شخصیت کی توجہ مقبوضہ وادی کی طرف مبذول کرائی گئی۔ صدر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے پاکستانی قیادت کی یقین دلایا کہ اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم انصاف ،برابری اور مظلوموں کی طرف داری کرتا رہیگا۔ انہوں نے بھارتی قیادت سے بھی کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیل سے باز رہے یہ قدم خود اقوام متحدہ کی منظور شدہ قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان قوم مہمان شخصیت کے خیالات کا خیر مقدم کرتی ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور دنیا کے مظلوم افراد کے ساتھ کشمیری اورفلسطینی بھی آزاد فضاء میں سانس لے کر مذہبی آزادی کا حق استعمال کر سکیں۔اب کچھ باتیں ہندوستان میں کرونا وائرس اور حکومت کی ,,انسان دوستی،، کی ہوجائیں۔ مودی سرکار نے کرونا کیسز میں تیزی سے اضافے کے دوران انجیکشن اور وینٹیلیٹرز برآمد کیے اور بھارتی اور کشمیریوں کو کرونا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔مقبوضہ کشمیر میں کورونا وائرس کی تباہ کن لہر کا پیش خیمہ ہورہی ہے ، جہاں پہلے سے ہی سہولیات صحت کا فقدان ہیں۔کشمیر میں صورتحال اتنا تناؤ کا شکار ہے کہ دہلی میں جو صورتحال ہے مقبوضہ کشمیر میں اس کے مقابلیمیں کیسز ابھی 0.02 فیصد کے قریب بھی نہیں ہیں ، لیکن میڈیکل عملہ مقبوضہ وادی میں پہلے ہی وسائل کی کمی کو شکار ہے۔مقبوضہ کشمیر میں صورتحال ‘چیلنجنگ’ ہے کیونکہ مثبت کیسز کی شرح نمو 8.12 فیصد ہے جو پچھلے سال سے زیادہ ہے۔انتظامیہ نے اس حقیقت کے باوجود کہ وادی کشمیر میں کورونا کیسز بہت زیادہ بڑھ رہے ہی، ہندوستانی سیاحوں کو اجازت دی۔ ہزاروں بے گناہ کشمیریوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں جنھیں کئی برسوں سے مختلف ہندوستانی جیلوں میں نظربند رکھا گیا ہے اور اب جیلوں میں غیر صفائی کے حالات کی وجہ سے انھیں وائرس کے خطرے کا سامنا ہے۔بھارت میں بیشتر ہسپتال حکام کو آکسیجن کی کمی کے بارے میں آگاہ کرتے رہے ہیں تاہم ابھی تک اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے۔ اس دوران اس وبائی مرض کے علاج کے لیے جو دوائیں استعمال ہوتی ہیں، بازار میں ان کی بھی شدید قلت ہے اور وہ انتہائی مشکل سے مل پا رہی ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے بھارت میں کورونا وائرس کی انفیکشن کے نئے کیسز اور اس وائرس کے باعث ہونے والی اموات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی سرکار حکومت اب اپنی ناکامیوں کا ٹھیکرا عام لوگوں کے سر پھوڑے گی۔ کئی بڑے شہروں، ریاستوں میں مہاجر مزدوروں کو ان کے حال پر چھوڑنے کا معاملہ ہو یا زندہ رہنے کی ان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی گارنٹی کا مسئلہ، حکومتی ناکامیاں ظاہر ہو گئی ہیں۔ انڈیا کرونا وائرس کے پھیلاؤ سے موت کی وادی بن چکا ہے۔۔اور اب مْودی سرکار اپنی بدتر ناکامی سے توجہ ہٹانے کے لئے ایک بار پھر پاکستان دشمنی کا سہارالے گا۔ ویسے اب تو مودی سرکار کی پارٹی بی جے پی اور اسکے گودی میڈیا والے بھی مودی سرکار کی ناکامی پر لعن طعن کر رہے ہیں ۔کرونا ویکسین کی سپلائی حاصل کرنے کے لئے اب ہندوستانی ریاستیں ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں۔ مودی سرکار نے ملک میں اپنے ہی لوگوں کو نیست و نابود کردیا۔ مودی سرکار نے دانستہ طور پر سائنسی مشوروں کو نظرانداز کیا تھا اور وقت سے پہلے ہی وبائی مرض پر فتح کا اعلان کیا تھا جس سے وبائی امراض کا مقابلہ کرنے میں غفلت ظاہر ہوتی ہے۔ اس مشکل وقت پر، ٹیکس کو لوگوں کو طبی سہولیات اور بہتر نگہداشت کی فراہمی کے لئے استعمال کیا جانا چاہئے۔ ایسا کرنے کے بجائے مودی سرکارانتخابات اور ذاتی آسائشوں پر رقم وجرمانہ ضائع کرنے میں ملوث ہے۔ مودی کا وبائی مرض سے پہلے کا نعرہ ،’’آتمانیربربھارت’’ یعنی ‘‘خودپر انحصار کرنے والا ہندوستان’’ کا نعرہ کہیں کسی گہری کھائی میں دفن ہوگیا ہے۔