تحریک انصاف میں ترین کے بعد چھینہ گروپ کی انٹری
صد بسم اللہ، جی آیاں نوں۔ اس نئی انٹری پر تو تحریک انصاف مبارکباد کے لائق ہے کہ یہ کثیر العیال جماعتوں کی فہرست میں جگہ بنا چکی ہے۔ ہمارے ہاں ہر سیاسی جماعت میں ایک دو یا تین دھڑے یوں ہوتے ہیں جیسے نہ چاہنے کے باوجود ہر گھر میں تین چار سے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔ اب جہانگیر ترین گروپ جب وجود میں آیا تو تحریک انصاف میں پہلے سے قائم حقیقی یا نظریاتی گروپوں کو تقویت ملی۔ پہلے گمنام سے گروپ تھے مگر ترین گروپ گمنام نہیں، خاصہ نامور گروپ تھا۔ اسے بدنام بھی کیا گیا۔ شوگر ملز کے حوالے سے ملنے والی بدنامی اس کی اہمیت پر کوئی خاص اثر نہ ڈال سکی۔ خاصے توانا لوگ اس گروپ میں شامل تھے۔ اس لئے ان کی گڈی چڑھی رہی۔اب یہ جو نیا چھینہ گروپ سامنے آیا ہے، یہ بھی عددی اعتبار سے خاصا مضبوط لگ رہا ہے۔ ملک غضنفر چھینہ اس کے روح رواں ہیں۔ 15 باغی ارکان اس میں شامل ہیں جنہوں نے بے خوف ہوکر اپنی تقریب رونمائی میں شرکت کی۔ انہیں بھی پارٹی لائن سے کافی شکایات ہیں۔ تحفظات ہیں۔ اسے ہم مفادات کی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ دیکھتے ہیں تحریک انصاف اس دوسرے بڑے جھٹکے کو کس طرح آسانی سے برداشت کرتی ہے۔ ان کے ساتھ بھی ترین گروپ والا سلوک ہوتا ہے یا کچھ اور سامنے آتا ہے۔ تحریک انصاف بخوبی جانتی ہوگی کہ پہلے 23 اب 15 ارکان کا یوں منہ پھلا کر بیٹھ جانا اچھا شگون نہیں ہے۔ اب کہیں یہ روایت مضبوط نہ ہو جائے کہ جس کا جی چاہے چند لوگوں کو ساتھ ملا کر گروپ بنالے اور اپنی حکومت کوہی بلیک میل کرے۔ اس سے تو اپوزیشن کو ہی فائدہ مل سکتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
برڈ فلو وائرس اگلی عالمی وبا بن سکتی ہے: چین
خدا خیر کرے دنیا پہلے ہی چین سے نکلنے والے کرونا وائرس کے ہاتھوں ادھ موئی ہوچکی ہے۔ بندہ بندے سے دور بھاگتا پھرتا ہے۔ دنیا کے اربوں لوگ کرونا کی وجہ سے خوفزدہ اور سہمی ہوئی زندگی بسر کررہے ہیں۔ تمام تر احتیاط اورو یکسی نیشن کے باوجود لوگ کھل کر مل نہیں رہے۔ گھل مل کر رہنا ایک خواب سا بن گیا ہے۔ اب چین نے ہی ایک نئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے جس کے بعد خدا جانے لوگوں کوچین سے مرغی کھانا بھی نصیب ہوگا یا نہیں۔ چین کی وارننگ کے مطابق اگلی نئی عالمی وبا برڈفلو ہوگی۔ اس وقت رپورٹوں کے مطابق دنیا کے 46 ممالک میں یہ مرض پھیل چکا ہے اور لاکھوں مرغیاں اس سے مر چکی ہیں۔ پاکستان میں بھی مرغیوں کی برڈفلو کے باعث مرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔برڈ فلو نئی بیماری نہیں اس کی وجہ سے پہلے بھی مرغیاں ، بطخیں و دیگر پرندے بری طرح متاثر ہوکر موت سے ہمکنار ہوتے رہے ہیں۔ برڈ فلو سے متاثرہ مرغی اور بطخ کا گوشت کھانے سے انسان بھی بیمار ہوجاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب برڈ فلو پھیلا تھا تو اس کے زریں اثرات ہماری گوشت مارکیٹ پر بھی دیکھنے میں آئے تھے جب مرغی کی قیمت ٹکے سیر ہوگئی تھی۔ اس طرح لاکھوں غریبوں کے دستر خوان بھی مرغی کے سالن سے سج گئے تھے۔ متوسط طبقے نے تو اپنے فریج مرغی کے گوشت سے یوں بھر لئے تھے جس طرح عید قربان پرامیر لوگ قربانی کے گوشت سے بھر لیتے ہیں۔ اس وقت ہمارے ہاں مرغی کے گوشت کی قیمت جس طرح آسمان کو چھو رہی ہے لگتا ہے برڈ فلو کے خوف سے اس میں کچھ کمی ضرور آئے گی مگر اب یہ برڈفلو پر منحصر ہے کہ وہ کب چین سے سر پر سہرا سجائے نکلتا ہے اور دنیا بھر میں مرغیوں کی دنیا میں ہلچل مچاتا ہے۔ اس سے کم از کم غریب غرباء کو ایک بار پھر مرغی کھانا نصیب ہوسکتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ایٹمی دھماکوں کا سہرا راجہ ظفرالحق گوہر ایوب اور میرے سرجاتا ہے: شیخ رشید
کہاں ایٹمی دھماکے کے وقت دم دبا کر ملک سے بھاگنے والی باتیں اور کہاں یہ دلیرنہ بیان۔ اسے کہتے ہیں ہوائی، درفنطنی بھی موزوں لفظ ہے کیونکہ شیخ جی کے منہ سے جو نکلتا ہے وہ بذات خود اپنی لسانی اور ادبی حیثیت کا تعین کرواتا ہے۔یہ وہی شیخ رشید ہیں جنہوں نے ایٹمی دھماکے کے وقت کہا تھا کہ میں تو ملک سے ڈر کے مارے بھاگنے کی سوچ رہا تھا کہ کہیں کوئی پٹاخہ اِدھر اُدھر نہ ہو جائے۔ کہاں وہ سہما ہوا شیخ جو بھاگنے کی سوچ رہا تھا اور کہاں اب یہ شیر دلیر۔ وہ بے شمارسیاسی ، غیرسیاسی کمالات کے حامل ہیں۔ کیا معلوم کل وہ پاکستان کے آئین کی تخلیق کا سہرا بھی اپنے سر باندھ لیں۔ کس نے انہیں روکنا ہے۔ پیپلزپارٹی والے پہلے ہی شیخ رشید سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں اظہار رائے پر پابندی نہیں جس کا جی چاہے جو چاہے کہہ دے کوئی اسے روک نہیں پاتا۔ ہاں البتہ اگر کوئی بے چارہ قسمت کا مارا عام آدمی کچھ کہے تو فوراً اس کیخلاف ردعمل سامنے آتا ہے۔ یہ صرف زبانی کلامی ہی نہیں ہوتا اسے دست بدست بھی بہت کچھ سمجھا دیا جاتا ہے۔ مگر شیخ جی کو کون سمجھائے اب انہوں نے اپنے سر جو سہرا سجانے والی کہانی سنائی ہے اس پر تو صرف رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔ چلو جی ویسے تو شیخ جی کا سر حقیقی سہرا سجانے کو تیار نہیں اب محاورۃ سہرا سجانا وہ بھی ایٹمی دھماکے کرانے کا اپنے سر باندھنا انہیں مبارک ہو مگر اس تعلی کو کون تسلیم کرے گا۔ انہوں نے اپنے ساتھ جن حضرات کا نام لیا ہے کہیں وہ بھی اس بھاری سچ سے گھبرا کر اپنے بری الذمہ ہونے کا اعلان نہ کردیں کیونکہ وہ اتنا بھاری بوجھ اٹھانے کی عمر میں نہیں نہ ہی ان میں اتنی طاقت ہے۔
٭٭٭٭٭٭
جولائی سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوجائے گی: وزیر خزانہ
دیکھتے ہیں یہ جولائی کب آئے گی۔ ایک جولائی تو صرف ایک ماہ کے فاصلے پر ہے ۔ خدا کرے کہ جس جولائی کا ذکر وزیر خزانہ کررہے ہیں وہ یہی 2021 کی جولائی ہو تاکہ عوام کا وہ خواب پورا ہو جو اس نے تحریک انصاف کو الیکشن میں ووٹ ڈالتے اور کامیاب کراتے وقت دیکھا تھا۔ ورنہ ابھی تک تو ’’دینوا دینوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا ‘‘ کہیں سے بھی ریلیف کا خواب پوراہوتا دکھائی نہیں دیتا۔مہنگائی غریبوں کا رہا سہا خون بھی نچوڑ رہی ہے۔ امرائ، اشرافیہ اور حکمرانوں پر تو مہنگائی کا اثر نہ پہلے ہوا تھا نہ اب ہورہا ہے۔ یہ وہ برق ہے جو گرتی بھی ہے تو صرف غریبوں پر ہی گرتی ہے۔ چند روز بعد جون کا مہینہ آرہا ہے جس میں بجٹ پیش ہوتا ہے۔ آج تک کوئی بھی بجٹ غریبوں کیلئے رحمت بن کر نازل نہیں ہوا۔ بجٹ ہمیشہ غریبوں کے خرمن پر ہی بجلی بن کر گرتا ہے۔ اسی لئے لوگ جون کی گرمی اور بجٹ کی آمد سے پناہ مانگتے ہیں۔ اب وزیر خزانہ کی زبان پر اگر اعتبار کریں تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جولائی میں بجٹ ابر باراں کی طرح رحمت بن کر برس سکتا ہے ۔ لیکن اگر اب بھی یہ بجٹ سورج کی طرح آگ برساتا نظر آیا تو پھر کیا ہوگا۔ عوام تو تسلی و تشفی سے بھری تقریرو ں پر ہی جی رہے ہیں۔ تین برس میں بھی اگر ریلیف نہ مل پایا تو کب ملے گا کہیں حکومت باقی حکمرانوں کی طرح آخری سال بجٹ میں تھوڑا سا ریلیف دے کر عوام کے ووٹ پکے کرنے کے چکر میں تو نہیں…
٭٭٭٭٭٭
اتوار‘ 18؍ شوال 1442ھ‘ 30؍مئی 2021ء
May 30, 2021