ہم زیرکاشت رقبے میں اضافے کیلئے چین کے تعاون سے 2 بڑے اور 8 چھوٹے ڈیم بنارہے ہیں اور کورونا کیوجہ سے لاک ڈاؤن جیسے برے حالات میں جی ڈی پی کا 4 فیصد بڑھ جانا بڑی خوشخبری اور اللہ تعالی کا انعام ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم کو اخبار نویسوں کی طرف سے سوال کیا گیا کہ آپ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ٹیکس اصلاحات، ٹیکس چوری کے تدارک اور’’ وسل بلور‘‘ کی بات کی تھی ۔اسکے بعد سے مکمل خاموشی ہے ، جس پر انہوں نے فوری رد عمل دیتے ہوئے کہا ہاں مجھے تو یاد ہی نہیں رہا اور اسی وقت ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے پرسنل سٹاف آفیسر کو حکم دیا کہ اسے نوٹ کریں میں نے اس پر کام کروانا ہے۔
اسی موقع پر اس کالم نگار کی طرف سے ایک تجویز دی گئی کہ پنجاب میں ایک لاکھ تیس ہزار کلومیٹر پر محیط سڑکوں کا جال ہے جس کا 70 فیصد ایسے علاقوں میں ہے جہاں دونوں اطراف میں زیر کاشت رقبہ جات ہیں ۔ اگر ایک کلومیٹر میں درختوں کی ایک قطار لگائی جائے تو1200 درخت لگتے ہیں ، دوہوں تو 2400، اور تین قطاریں ہوتو 3600 درخت لگتے ہیں کیونکہ بعض جگہوں پر اطراف میں اچھی خاصی سرکاری اراضی موجود ہے ۔ اگر حکومت سڑکوں کے اطراف کے کاشتکاروں سے کوئی ایم او یو سائن کرلے ، وہی کاشتکار لوگ درخت لگائیں اور وہی انکی دیکھ بھال کریں اور دس سال بعد آدھے درخت حکومت کو دے کر آدھے خود رکھ لیں تو جہاں حکومت کو کھربوں روپیہ ملے گا وہی سبز انقلاب آج بھی آجائیگا تو وزیراعظم کے ساتھ بیٹھے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار بول پڑے کہ اسی قسم کی سکیم میں پنجاب کی نہروں پر شروع کررہا ہوں۔ یہ بہت اچھی تجویز ہے اسے سڑکوں پر بھی لاگو کرتے ہیں گویا عثمان بزدار اس معاملے سے مکمل طور پر آگاہ تھے۔ زیب داستان کیلئے عرض کرتا ہوں کہ چند سال قبل میں نے یہی تجویز اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو دی تھی ۔ انہوں نے بھی اس تجویز کو بہت پسند کیاتھا میرا موبائل نمبر نوٹ کرکے اپنے ساتھ بیٹھے غلام محی الدین وانی نامی ایک بیوروکریٹ کوکہا کہ کل ہی آپ رابطہ کرکے پوری تجویز لیں ۔ وہ کل نہ آنی تھی اور نہ آج تک آئی کیونکہ ماضی کے حکمران کوئی ایسا منصوبہ سننا ہی پسند نہیں کرتے تھے جس پر سرکار کا یا اُدھار کا پیسہ خرچ نہ ہوتا۔
’’ مجھے تویاد ہی نہیں رہا ‘‘ جناب وزیراعظم کے اس جملے سے مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی نوکر شاہی کس حد تک ظالم اور اپنے فرائض سے غافل ہے ۔اسے یہ تک یاد نہیں کہ ملک کے وزیراعظم نے جو اعلانات کیے تھے اس پر کیا پیش رفت ہوئی اور اگر ہوئی تو اس پر وزیراعظم کو آگاہ کیوں نہیں کیا گیا کیا یہ وزیراعظم کا کام ہے کہ وہ نوٹس لیتے پھریں ۔ نوکر شاہی کس مرض کی دوا ہے ۔کیا یہ نوکر شاہی اس عمومی تاثر کو سچ ثابت نہیں کررہی کہ یہ لوگ کام نہ کرنے اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کی تو تنخواہ لیتے ہیں مگر کام کرنے کا عوضانہ تنخواہ و دیگر مراعات سے ہٹ کر لیتے ہیں ۔ چلیں ایک معمولی سرکاری اہلکار سے لے کر اعلی ترین افسر تک کم از کم اس ایک معاملے پر تو سب متفق ہیں ۔
40 منٹ کے اس سوال و جواب کے سیشن میں جو بات محسوس کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وزیراعظم اجتماعی قومی بہتری کے بارے میںبہت زیادہ سوچتے ہیں جس کی ایک بہت بڑی مثال یونیورسل ہیلتھ کارڈ کا پہلے مرحلے میں ڈیرہ غازی خان اور ساہیوال ڈویژن کے سات اضلاع میں اجراء ہے ۔حتی کہ اس بڑی ہیلتھ انشورنس کا پریمیئم بھی حکومت دے رہی ہے۔یہ سہولت تو بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں اور اس قسم کا فیصلہ نظام قدرت پر کوئی بہت مضبوط ایمان رکھنے و الا شخص ہی کرسکتا ہے ۔ ورنہ سالہا سال سے بنکاروں کے نرغے میں جکڑے ہمارے سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں کو جب اعداو شمار کے گورکھ دھندے میں اُلجھا کر ایسے عوامی فلاحی منصوبوں کے نقصانات بتائے جاتے ہیں۔ پھر ایسے منصوبوں میں کک بیک بھی تو نہیں ہوتا تو اگلے الیکشن کو ٹارگٹ رکھ کر حکومت کرنیوالے کیونکر اس قسم کی بہتری کا سوچیں گے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو مجھے عمران خان کی نیت اور قدرت کے نظام پر مکمل بھروسے کی نشاندہی کرتے ہوئے نظر آئے ۔ جس وقت عمران خان یہ بات کہہ رہے تھے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات شرح سب سے زیادہ ہے اور جس وقت وہ یہ کہہ رہے تھے کہ زچگی کے وقت موت کے منہ میں جانے والی عورتوں کی تعداد میں بھی پاکستان ہی سرِ فہرست ہے تو میں انکے چہرے کا کرب ہی پڑھتا رہا ۔
’’ اعمال کا دارومدارنیتوں پر ہے ‘‘ جس نے غریب کا سوچنا شروع کردیا۔ عام آدمی کیلئے ہیلتھ انشورنس کا اتنا بڑا نظام دے دیا۔اسکی نیت پر شک کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ وہ بھی ایسے پاکستان میں جہاں مرسڈیز کار کی فیکٹری لگانے کیلئے آنے والی جرمن ٹیم میز کے نیچے سے بھاری رشوت کے مطالبے پر واپس جاتی ہے پھر وہی پلانٹ ایران میںنصب ہو جاتا ہے ۔ایک ایسا ملک جس کی حکومت کو آج سے 50 سال قبل جاپان یہ پیشکش کرتا ہے کہ کراچی تا خیبر ریلوے کے تمام تر ٹریکس کے اطراف کی زمینیں انہیں30 سال کیلئے لیز پر دے دیں وہ یہاں سبزیاں اُگائیں گے اور اُس کا 40 فیصد پاکستان کو دیکر 60 فیصد ایکسپورٹ کرینگے ۔ حکومت پاکستان سے ایک روپیہ نہیں لیں گے ،سارا پیسہ خود لگائیں گے اور ساتھ ہی ٹریک کی اپ گریڈیشن کر ینگے اور جاتے ہوئے ساری ٹیکنالوجی پاکستان کو منتقل کردینگے ۔ اگر ماضی کی حکومت کے مذکورہ لوگ جو آج یقیناً دنیا میں ہیں ،اس آفر کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالتے تو پاکستان میں آج سے بیس سال قبل زرعی انقلاب آچکا ہوتا مگر کک بیک نہ ملنے پر وہ منصوبہ بھی ختم ہوگیا اور آج پچاس سال بعد بھی ریلوے ٹریک کے اردگرد کی زمینیں بھی گرد ہی اُڑا رہی ہیں ۔یہ سب اس پاکستان میں ہورہا ہے جس کے علاقے سوات میں جاپانی ماہرین سروے کرتے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی واٹر گیم لگانے کی پیشکش کرتے ہیں۔ جس کا تیس فیصد منافع پاکستان کو ملنا تھا اور 25 سال بعد تمام تر پاکستان کے حوالے ہوجانا تھا کک بیک نہ ملنے پر بے نظیر دور کے ایک مشیر سیاحت نے جب اپنے ساتھ بیٹھے آفیسر سے اردو میں گفتگو شروع کی تو انہوں نے اپنا سامان سمیٹ لیا اور یہ کہہ کر نکل گئے کہ ہمیں ہمارے سفیر نے بریفنگ دی تھی کہ جب میٹنگ کے دوران پاکستانی کسی ساتھی سے اردو میں گفتگو شروع کردیں تو یقیناً وہ کک بیک مانگ رہے ہوتے ہیں لہٰذا گڈ بائے ۔اس قسم کے حالات کی آلودگی میں لپٹا ہوا پاکستان عمران خان کو ملا اور امید یہ رکھی جارہی ہے کہ بہت تیزی سے بہتری آجائیگی۔سابق وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا گروتھ ریٹ ایک دم بڑھ جانا میرے نزدیک کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ گروتھ ریٹ پانچ یا 4.98 کے قریب پہنچ جائیگا۔
ایک معروف کالم نگار جن کا شمار وزیراعظم عمران خان کے ناقدین میں ہوتا ہے ، نے کہا ہے کہ پاکستانی معیشت کے حیران کن نتائج سامنے آرہے ہیں۔ کراچی سے عقیل کریم ڈھیڈی نے کہا ہے کہ ہمارا انڈسڑی سے چوبیس گھنٹے کا رابطہ ہے۔انڈسٹری کیسے گروتھ کررہی ہے۔ اس کا تصورآپ نہیں کرسکتے کیونکہ جو بات ہم جانتے ہیں شاید عام آدمی نہیں جان سکتا۔ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ انڈسڑی اتنی تیزی سے گروتھ کرے گی۔یہ بات کسی معجزے سے کم نہیں۔
تین سال میں پچاس سال کا بگاڑ ختم کرنا اتنا مشکل کام ہے جس کی ذمہ داری کوئی سر پھرا ہی لے سکتا تھااور وزیراعظم نے نہ صرف وہ ذمہ داری لے رکھی ہے بلکہ عمومی بہتری کیلئے کوشاں بھی ہیں ۔
…………………… (ختم شد)