پاکستان میں سب سے آسان چیز کسی پر بھی کرپشن کا الزام عائد کرنا ہے کیوں کہ بعد میں اس کرپشن کو ثابت کرنا الزام لگانے والا کا نہیں جس پر الزام لگایا جا رہا ہے اس کا درد سر بن جاتا ہے،اس پر جو الزام لگایا جا رہا ہے اس کو اس نے کیسے جھوٹا ثابت کرنا ہے یہ اس کی ذمہ داری ہے اور اس پر عمر بھر کا الزام بھی ہے چاہے ثابت ہو نہ نا ہو۔
یہی کچھ رنگ روڈ سکینڈل میں ہو رہا ہے جس کے آج کل بڑے چرچے ہیں کہ وزیراعظم کے آفس میں بیٹھ کے کیسے طاقتور مشیر وزیراعظم کو گمراہ کر رہے ہیں اور ایک کمشنر کو اتنا با اختیار دکھایا جا رہا ہے کہ سب الزام،پیسے کا لین دین اور زمینوں کی خرید و فروخت سب کچھ اس کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے اور کہیں اس کا موقف جاننے کی کوشش ہی نہیں کی جا رہی کہ اس سے بھی پوچھا جائے جس رپورٹ کا بڑا تذکرہ ہے جو موجودہ راولپنڈی کمشنر گلزار حسین شاہ نے مرتب کی ہے (جن پر خود ڈسکہ الیکشن چرانے کا الزام لگایا جاتا ہے)جس میں راولپنڈی رنگ روڈ کا منصوبہ ساز ہی سابق کمشنر محمد محمود کو ٹھہرایا گیا ہے‘ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جو بیان ہی نہیں کی جا رہی۔
روالپنڈی رنگ روڈ منصوبہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہروں میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کیلئے منظور کیا گیا تھا جس کے تحت راولپنڈی کے علاقے روات سے ایک سڑک تعمیر کی جانی تھی جسے راولپنڈی شہر کے باہر سے ہوتے ہوئے ترنول کو جی ٹی روڈ اور پھر موٹر وے کو ملانا تھا۔
اس رنگ روڈ کی تعمیر سے جی ٹی روڈ سے پنجاب سے صوبہ خیبر پختونخواہ جانے والی ٹریفک نے رنگ روڈ استعمال کرنا تھا جس کی وجہ سے اسلام آباد ہائی وے پر ٹریفک کا دباؤ کم ہونا تھا۔ اس منصوبے کی نیسپاک نے بھی منظوری دی اور لیکن موجودہ حکومت نے اس منصوبے پر عملی پیش رفت کیلئے ایک برس قبل پیپر ورک کا دوبارہ سے آغاز کیا۔ جب طاقتور مشیروں نے اس منصوبے میں اپنی زمینیں شامل نہ ہونے پر وزیرعظم کے کان بھرے تو وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی محمد محمود کو ہٹا کر ان کی جگہ گلزار حسین شاہ جیسے متنازع آدمی کو کمشنر کے عہدے پر تعینات کیا جنہوں نے فیکٹ فائنڈگ رپورٹ مرتب کی جس میں درجن بھر نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں پر بے بنیاد الزام لگائے جن میں نوا سٹی بھی شامل ہے جو اپنی بے گناہی کیلئے اب در بدر پھر رہے ہیں۔
فیکٹ فائنڈگ رپورٹ میں ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی اور اس کے مالکان کا ذکر سرے سے ہی گول کر دیا گیا جن کا تعلق وزیراعظم کے طاقتور مشیروں سے لے کر اقتدار کے ایونواں میں براجمان ہر اس صاحب حیثیت شخص سے ہیں جس کے پاس معمولی سا بھی اختیار ہے۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ فیکٹ فائنڈگ کمیٹی کمشنر راولپنڈی کو بھی طلب کرتی ان کا م بھی موقف لیتی اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان کو بھی بلایا جاتا(کیوں کہ ان کا کاروبار داؤ پر لگ چکا ہے) ان سے بھی تحقیقات کی جاتیں تا کہ سچ اور جھوٹ واضح ہوتا لیکن ان سے بالا بالا ہی ایک رپورٹ تیار کر کے الزامات کا ملغوبہ بنا کر تھوپ دیا گیا ہے کہ اب دیتے رہو صفائیاں کون سا کسی نے ماننا ہے۔ وفاقی وزیر غلام سرور خان کا نام رپورٹ میں نہیں ہے جب کہ ان کی برادری کی زمینیں بھی اس رنگ روڈ کے ساتھ منسلک ہیں، اس کے علاوہ زلفی بخاری کے رشتہ داروں کی بھی زمینیں اس سڑک کے گرد گھوم رہی ہیں ان کا نام نہیں لیا گیا۔
پاکستان کی ایک بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی جس نے تقریبا ہر بڑے شہر میں اپنا پراجیکٹ شروع کر رکھا ہے اس کا نام نہیں ہے،اس کے علاوہ رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ہاؤسنگ کالونیاں اور ان کے مالکان کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا ہو لیکن اس کا ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے جو اس بات کا مظہر ہے کہ اس رپورٹ میں جھول ہیں۔ اس رپورٹ میں درجن بھر سوسائٹیوں کے نام ہیں اور کسی اعلی سیاسی شخصیت کا نام موجود نہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ
ایک کمشنر لیول کا بندہ اربوں روپے کی کرپشن خود ہی کر جائے اور کسی سیاسی شخصیت کی منطوری نہ ہوئی ہو۔رنگ روڈ کا منصوبہ کیوں کہ وزیراعلی ہاؤس سے منظور ہوا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس صوبے میں یہ اربوں روپے کی لین دین ہو رہی ہے اس کے وزیراعلی اس سے با خبر نہ ہواور نہ ہی ان کے چیف سیکرٹری کو اتنے بڑے منصوبے کی کوئی گن سن ہو۔کہانی میں اتنے جھول ہیں اور ادھوری کہانی بتا کر عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے جس کا نقصان اگرچہ سرکاری افسران کا بھی ہو رہا ہے جن پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کاروباری افراد جن کا اس معاملے سے لینا دینا نہیں ہے جن پر کوئی الزام ثابت بھی نہیں ہوا انہیں خوامخوا بدنام کیا جا رہا ہے اور ان کے نام اچھالے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ان کے کاروبار داؤ پر لگ چکے ہیں۔
اس بات کی چھان بین ہونی چاہئے کہ ان چھوٹی چھوٹی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو بدنام کر کے کس بڑی مچھلی کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے تا کہ یک طرفہ سچ کی بجائے مکمل سچ عوام کو بتایا جا سکے۔
راولپنڈی رنگ روڈ کا ادھورا سچ
May 30, 2021