کچھ دن پہلے یونیسف کی ایک رپورٹ نظروں کے سامنے سے گزری جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد لڑکیاں ا یسی ہیں جن کی عمر 20سے 35سال تک کی ہیں اور شادیوں کے انتظار میں ہیں ان میں سے دس لاکھ لڑکیوں کی شادی کی عمر گزر چکی ہے، تنہا رہ جانے والی ، بیوائیں جن کی عمر یں 30سے 45سال کی ہیں وہ بھی تقریبا 60 لاکھ کی تعداد میں موجود ہیں ۔ مطلب یہ کہ وہ بیوائیں ہیں جن کی دوسری شادی ممکن ہے ۔یہ رپورٹ ہمارے آج کے دور کے ان معاشرتی مسائل کی جانب اشارہ کر رہی ہے جس سے مرد اور عورتیں دونوں دوچار ہیں ۔
سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ اگر اپنے آس پاس نگاہ دوڑائی جائے تو اس کے قصور وار مرد اور عورتیں دونوں ہیں ۔ ایک طرف تو ایسی لڑکیوں کی کمی نہیں ہے جن کے والدین کم آمدن کی وجہ سے گاڑیاں بھر بھر کر جہیز دینے سے قاصر ہیں اور لڑکے والوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی فرمائشیں لڑکی والے والدین کے لئے کسی آزمائش سے کم نہیں ہیں یا پھر واجبی شکل و صورت کی وجہ سے لوگ آتے ہیں اور مسترد کر کے چلے جاتے ہیں اور ساتھ ہی دوسری طرف یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان ایک کروڑ لڑکیوں کے گھر جا کے رشتہ مانگیں تو ستر اسی فی صد کو پڑھا لکھا یا سرکاری نوکری والا یا گھر گاڑی والا لڑکا چاہیے ساتھ ہی یہ کہ کنوارہ بھی ہو اور آج کل کے ڈرامے اور مارننگ شوز تو ایسی کمال کی ہماری بہنوں ، بیٹیوںکی ذہن سازی کر رہے ہیں کہ آج کل جو لڑکیاں تھوڑا پڑھ لکھ جاتی ہیں یا نوکریاں کر رہی ہوتی ہیں انہیں تو ساس نندوں کا جھنجھٹ بھی نہیں چاہیے ، گھر بھی الگ چاہیے اتنی شرطوں کے بعد خوب سے خوب تر کی رشتوں کی تلاش انہیں والدین کی دہلیز پہ ہی بٹھائے رکھتی ہے
مغربی معاشرے کی تقلید میں ہمارے ہاں معاشرے کا ایک مخصوص طبقہ جن میں خواتین اور مرد دونوں شامل ہیں جوکبھی رنگ برنگے پلے کارڈ اٹھائے عورت مارچ میں نظر آئے گا ، کبھی سٹوڈنٹ مارچ میں اور کل کسی اور نام سے آ جائے گا جس کا مقصد نام نہاد وہ آزادی ہے جو ہمارے خاندانی نظام کو کمزور کرنا چاہتی ہے جو ہمارے مضبوط معاشرے کی بنیاد ہے اور اس بنیاد میں پڑنے والی دراڑیں ہی ہمیں اب آج ایسے مسائل سے دوچار کر رہی ہیں ۔ ہمارے ہاں مرد کے کردار کو اس قدر مشکوک کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ مخلصی سے کبھی کوئی قدم بڑھانے کی کوشش بھی کرے تو ہمارے معاشرتی رویوں کی بدصورتی اس سے روک لیتی ہے ۔
مشہور مصنفہ بانو آپا نے مردوں کے حوالے سے اپنی تحریر میں بہت خوبصورت لکھا کہ میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انہوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہو رہا ہے اور ان کے بعد ہمارا کیا ہو گا ؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی ایک بازار میں عید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہ رہی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ہو گئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ہے جو خراب ہو گئی ہو گی ، تم دیکھ لو اور کیا لینا ہے بعد میں اکیلے آ کر اس رش میں کچھ نہیں لے پائو گی ابھی میں ساتھ ہوں جو خریدنا ہے آج ہی خرید لو ۔۔
میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنے بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفے لایا میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ہوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ہوں لیکن اس کی کھنچی ہوئی کنپٹیاں اور سرخ ہوتی ہوئی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ہو چکا ، رونا تو وہ بھی سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا ، میں نے مرد کا ضبط چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی نہیں روتا اسے رونے نہیں دے گا ۔
یہ صورت حال ہمارے معاشرے کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ مردوں اور عورتوں کو سب کو اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے ،اس طرح کے مسائل کا تدارک صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں شادی کی بے جا رسمیں ، جہیز کے نام پہ لڑکی والوں کا استحصال اور لڑکی والوں کی لڑکوں سے بے جا فرمائشیںجب تک ہم ان تمام عوامل کو ہم مل کر حل نہیں کریں گے اس طرح کے مسائل ہمارے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے رہیں گے ۔