’’وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘‘

May 30, 2021

حکومت نے اگر اپنے تین سالہ دور حکومت میں پہلے سے مسائل میں پسے عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے کوئی بیس پچیس فیصد بھی کام کیا ہوتا تو آج عوام اطمینان کا سانس لے رہے ہوتے۔ حکومت کی ناکامی تو ہر شعبے میں عیاں ہے مگر غریب اور پسے ہوئے طبقے کیلئے تو یہ قہر بن کر نازل ہوئی ہے ،جبکہ سفید پوش طبقے کی اس سے بھی بری حالت ہے وہ نہ کسی سے مانگ سکتا ہے اور نہ اپنا دکھ کسی سے شیئر کر سکتا ہے، یہاں تک کہ حکومتی’’ لنگر خانوں‘‘ سے بھی مستفید نہیں ہو سکتا، جبکہ کام اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ حکومتی ترجمانوں کے سبز باگ دکھانے کے موقف کے بر عکس عام آدمی اس وقت بہت ہی بری حالت کا شکار ہے ، یہ بات ہوا میں نہیں اچھالی جارہی بلکہ اسکا ثبوت اگر چاہیے تو کوئی بھی حکومتی نمائندہ وزیر مشیر حلقے کا ایم این اے، ایم پی اے، اپنے کسی حلقے کے بازار میں پولیس کی نفری کے بغیر نکل کر عوام سے بات کر کے دکھادے۔
جتنا زور خان صاحب نے اپنے مخالفین کو زچ کرنے پریشان کرنے اور کرپشن کا راگ الاپنے میں لگایا ہے اگر اس کا دس فیصد بھی قومی اداروں کی درستگی اور انہیں عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف لگایا ہوتا تو آج ملکی سرکاری اداروں کا نہ صرف قبلہ درست ہو چکا ہوتا بلکہ عوام کی داد رسی بھی ہوتی ،اس وقت عالم یہ ہے کہ ایک طرف عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں تو دوسری جانب تمام ملکی ادارئے عوام کی پیٹھ پر تازیانے برسا رہے ہیں 'وہ حبس ہے کہ لْو کی دعا مانگتے ہیں لوگ‘ ۔ آج ہی خان صاحب نے فرمایا ہے کہ وہ عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بڑی اچھی بات ہے بلکہ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن انکے آگے ایک گزراش ہے کہ خود نہ سہی اپنے کسی بندے کو کسی بھی سرکاری دفتر میں عام آدمی کی حیثیت سے بجلی کا بل ٹھیک کرانے ،ٹیلیفون کا مسلہ پانی یا واسا کے دفتر کسی تھانے کچہری میں کوئی کام کروانے کیلئے بھیجیں اگر چودہ طبق روشن نہ ہو جائیں تو ہم ہر طرح کی سزا سہنے کیلئے تیار ہیں۔
 ہر طرف غربت ہے مہنگائی ہے ،بے بسی ہے ،بے روزگاری ہے، جہاں انسان کو زندگی کے لالے پڑے ہوں وہاں ساری کی ساری ریاستی مشینری عوام کے کس بل نکالنے میںکوئی کسر نہیں چھوڑ رہی اور دیکھا دیکھی نجی ادارے بھی اپنی ڈگر پر چل رہے ہیں جن میں خصوصاً ٹیلی کام سیکٹر آٹو انڈسٹری وغیرہ بھی شامل ہے جو اپنی مہنگی ترین سروسز اور اشیا فروخت کرتے ہیں لیکن بعد از سروس کوئی خدمت سر انجام دینے کیلئے تیار نہیں۔ 
خان صاحب عوام کو اگر ان جونکوں سے ہی نجات دلا دیں یا آسانیاں پیدا کر نے میں کچھ اقدمات اٹھا جائیں تو شائد ان کے قول فعل کے تضاد کو لوگ بھول جائیں۔ ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کے نظام کو درست کرنا ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنا اور شہریوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنا ہے، لیکن یہ محکمہ ان ’’غیر ضروری‘‘ کاموں کے علاوہ’’ ضروری کام‘‘ صرف چالان کرنا ہی سمجھتا ہے جبکہ پولیس جس کا کام امن اومان کے ساتھ نظام انصاف کو قائم کرنا، بے بس لاچار اور مجبور شہریوں کی مدد کرنا ہے کیا یہ محکمہ اپنے فرائض منصبی ادا کررہا ہے؟ لوگ پہلے ہی سسک سسک کر جی رہے ہیں اوپر سے ٹریفک وارڈن اور پولیس ہر طرف خوف پیدا کر کے پیسہ بٹورنے میں لگی ہے۔ کیا کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا ہوتا ہے؟
دوسری جانب مہنگائی کے حوالے سے عالمی مالیاتی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اس سال پاکستان میں ترقی کی شرح ڈیڑھ فیصد تک رہے گی جبکہ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔پاکستانی معیشت پر اپنی تازہ رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا کہ اس مالیاتی سال میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے کیمطابق معیشت میں ترقی کی شرح 1.5 فیصد تک رہے گی۔ اس سے قبل عالمی بینک نے بھی موجودہ مالیاتی سال کیلئے 1.3 فیصد ترقی کی پیشگوئی کر رکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو ناقص کارکردگی کی بنا پر ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا اور انکی جگہ حماد اظہر کو وزیر خزانہ مقرر کرنے کے چند دنوں کے بعد انہیں بھی ہٹا دیا گیا اور اب شوکت ترین سے توقعات وابستہ کئے بیٹھے ہیں لیکن جب تک زمینی حقائق کا ادراک نہیں کیا جائیگا۔
 اس وقت تک مہنگائی کی شرح کو کم اور عام آدمی کو ریلیف کیسے دیا جاسکتا ہے۔ نئے وزیر خزانہ نے بھی اپنے ایک بیان میں امید ظاہر کی ہے کہ معیشت میں توقعات سے زیادہ بہتری آئیگی اور اگلے سال تک ترقی کی شرح چار فیصد تک پہنچ جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ اس کیلئے حکومت ٹیکس محصولات بڑھانے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس چوروں کی پکڑ ہوگی اور حکومت اپنے ٹیکس اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریگی۔موجودہ حکومت جون میں اپنا تیسرا قومی بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس میں حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کی باتیں سامنے آرہی ہیں لیکن اس کیلئے قرضوں اور اندھا دھند ٹیکسوں پر انحصار کیا جارہا ہے، جبکہ کوئی پیدواری یونٹ نہ لگائے جارہے ہیں اور نہ کسی ایسے کام کی حواصلہ افزائی کی جارہی ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں جس سے غربت اور مہنگائی کم ہو بلکہ چلتے کاروبار رک چکے ہیں۔ بجلی اتنی مہنگی ہے کہ ہم اپنے ملک میں تیار کردہ اشیا کی قیمتوں میں کسی بھی ملک کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ 
عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں کا انہیں کیا فائدہ پہنچ رہا ہے ،جبکہ ایک پیدا ہونے بچے کی ضروریات کے استعمال کی چیزوں سے لیکر مرنے والے کے کفن دفن کے انتظامات میں کام آنے والی چیزوں پر بھی جو ٹیکس لیا جاتا ہے اس کا مصرف کیا ہے ۔ عوام تو تعلیم، صحت اور بنیادی ضرورتوں تک سے محروم ہیں؟ 

مزیدخبریں