لباسِ خضر میں یاں سینکڑوں رہزن پھرتے ہیں/ گرجینے کی خواہش ہے تو کچھ پہچان پیدا کر۔کڑوا سچ تویہ ہے کہ وطن عزیز میںعطائیوںکی بھرمار ہے۔کچھ روز قبل انتہائی افسوس ناک خبر نظر سے گزری کہ ایک سکیورٹی گارڈ نے پیسوں کے لالچ میںایک عورت کی زندگی دائو پر لگادی۔اس سارے واقعہ میں لاہور کے ایک معروف ہسپتال کا نام آیا۔اس معروف ہسپتال میں بلاشبہ سینکڑوں ڈاکٹر روزانہ علاج معالجے اور آپریشن کیلئے موجود ہوتے ہیں جب کام کا رش زیادہ ہو تو بے شک کہیں نہ کہیں کوتاہی کی شکایات بھی سامنے آتی ہیں۔ مگر بحیثیت مجموعی ڈاکٹر اور مریض ایک دوسرے سے مطمئن رہتے ہیں۔ سو فیصد نہ سہی 70 فیصد کام خوش اسلوبی سے ہوتا ہے۔ اب یہ جو نیا قصہ سامنے آیا ہے اس نے تو ہسپتالوں کے انتظام پر ایک نیا سوال کھڑا کر دیا ہے۔ ایک سکیورٹی گارڈ نے کس طرح مریض کے لواحقین کو بے وقوف بنا کر مریضہ کو سرجیکل وارڈ میں داخل کیا پھر اسے آپریشن تھیٹر میں لے جا کر سرجن بن کر ا سکا آپریشن بھی کر ڈالا۔تاہم ہمیشہ کی طرح صوبائی وزیر صحت نے تحقیقات اور ذمہ داران کیخلاف سخت کارروائی کا بھی حکم دیا۔بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی راقم الحروف کوبھی ایک سرکاری ہسپتال میں کسی طبی مسئلے کی وجہ سے سارا دن ’’ضائع‘‘کرنا پڑا۔تاہم اس طبی مسئلے کوتو’’چھوٹے عملے‘‘کی ’’مٹھی گرم‘‘ کرکے بندہ نے اپنا کام کروالیا لیکن ذہنی کوفت بہت ہوئی، اس کا تذکرہ ناقابل بیان ہے۔عطائیت معاشرے میں دھوکہ دہی یا جاہلانہ طبی طریقوں کے فروغ کا نام ہے اور جو شخص پیشہ ورانہ یا عوامی سطح پر ان جاہلانہ طبی طریقوں کا دعوی دار ہو اس کو عطائی ڈاکٹر کہتے ہیں۔ عطائیت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ اتنا ہی پرانی ہے جتنا انسانی تاریخ خود انسان ہمیشہ سے اپنا بچائو کرنے یا اپنے سکون کیلئے کسی نہ کسی صورت میں عطائیت کا سہارا لیتا رہا ہے۔ پاکستان میں عطائی ڈاکٹر کیلئے ’’نیم حکیم‘‘ کا لفظ زیادہ مشہور ہے پاکستانی معاشرے کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہاں ملک میں عطائیت کا ناسور بھی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے عطائیت کا تیزی سے پھیلتا ہوا یہ مہلک جال صحت مند پاکستانی معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ لوگوں میں ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ کی ضرب المثل مشہور تو بہت ہے مگر عملی طور پر اس ضرب المثل کی وقعت صرف کتابوں تک محدود ہے پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر، گلی محلوں اور نگر نگر عطائی ڈاکٹروں کی بھر مار ہے یہ عطائی ڈاکٹر مختلف بھیس بدل کر ہر جگہ موجود ہیں کہیں حکیموں کی صورت میں تو کہیں جعلی ڈسپنسرز کا لبادہ اوڑھے، کہیں جعلسازوں اور نہ تجربہ کار سٹاف کے روپ میں تو کہیں جعلی پیروں اور فراڈ ڈاکٹروں کے روپ میں، جدید دنیا میں جہاں صحت عامہ کے شعبہ میں ٹیکنالوجی کی بھر مار ہے وہاں دوسری طرف پاکستانی معاشرہ ان عطائیوں کی بدولت کئی مہلک امراض کا شکار ہے۔ ایک مریض کے روپ میں حضرت انسان کی لمبی قطاریں آپ کو ان عطائیوں کی دکانوں پر نظر آئیں گی جو ان کے کاروبار کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کا باعث بن رہی ہیں حکومت وقت اور قانون کے ٹھیکہ داروں نے انکے مجرمانہ فعل پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں عطائیت کیخلاف قانون تو موجود ہیں مگر ان پر عمل کروانے والے مجرمانہ طور پر خاموش ہیں۔ انسانی صحت جیسا اہم ترین شعبہ ہمارے ہاں ناتجربہ کارڈاکٹر وںاور عطائیوں کے ہاتھوں میں ہے۔کہیں غلط انجکشن لگنے کی خبریںآتی ہیں توکہیںجان سے جانے کی لیکن عطائیت ہے کہ پروان ہی چڑھ رہی ہے۔مسیحا کا روپ دھار کر یہ لوگ قاتلوں والا کام کررہے ہیں۔ ہر دوسرے دن غلط دو ا، غلط انجکشن سے بچوں، بڑوں کی ہلاکتوں کی داستانیں اخبار کی سطروں میں، چینلز کی خبروں میں کچھ عرصے تک تو گردش کرتی ہیں اور پھر اسی طرح سے سکون ہو جاتا ہے جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ لاکھ منتوں مرادوں کے بعد پیدا ہونیوا لا کسی ماں کا پھول،کسی کے گھر کا واحد کفیل لباس خضر میں ملبوس قاتلوں کے لالچ و ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔لیکن افسوس کے ان ظالموں کو لگام دینے والا کوئی نہیں۔کچھ دن ایسے واقعات کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی ہوتی ہے اور پھر کیس داخل دفتر اور قصائی نما انسانی خون کے یہ پیاسے پھر سے اپنا ذبح خانہ کھول کر کسی نئے شکارکو تاڑ لیتے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی صحت کے ساتھ کھیلنے والے ان درندوں کے خلاف موثر قانون سازی کی جائے،صرف محکمہ صحت کی جانب سے کسی کا کلینک سیل کردینے یا وقتی جرمانہ کردینے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس حوالے سے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن PMA،تمام صوبوں کے وزیر صحت،مرکز اورتما م صوبائی و مرکزی حکومت کو ملکر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا،کہ اگر خدا نخواستہ کسی نجی یا سرکاری ہسپتال میں اس قسم کا المناک واقعہ پیش آجائے تو اس صورت میں کیا کرنا ہے،موجودہ قوانین کو بدلنے اور سخت بنانے کی ضرورت ہے،خاص طور پرتما م نجی اور ساتھ سرکاری سطح پر موجودہ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی اسناد کی تصدیق کی جائے،اور جعلی ڈگری رکھنے والے کو نشانہ عبرت بنایا جائے۔