جییسنڈا آرڈرن کا محترمہ شہید کو شاندار خراجِ تحسین

تاریخ کے ساتھ جو لوگوں کے دلوں میں جگہ پاتے ہیں وہ امر ہو جاتے ہیں۔ بعض شخصیات زمان  و مکان اور سرحدوں  سے بھی آگے یاد رکھی جاتی ہیں ،پاکستان کی د نیا بھر میں روشن پہچان محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیت تھیں جنہیں اپنوں سے زیادہ غیر یاد رکھتے ہی نہیں بلکہ انہیں خراج تحسین پیش کرتے نظر آتے ہیں ۔کچھ عرصہ پیشتر  آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب  میں سابق برطانوی وزیراعظم مسز تھریسامے نے بے نظیر بھٹو شہید  کی بے مثال شخصیت کے بارے میں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔ محترمہ  پاکستان کی واحد سیاسی خاتون ہیں جنہیں آکسفورڈ یونیورسٹی سمیت دنیا بھر  میں یاد کیا جاتا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکہ کے مختلف ادارے بھی جمہوری اقدار اور انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ جون 1984  ء میں ڈنمارک کے دورہ کے دوران دو ممتاز اخبارات نے اپنے مفصل جائزہ میں انہیں ’’مشرق کی شہزادی‘‘ اور ’’فولادی خاتون‘‘ کے القابات دیئے تھے اور ان کی جدوجہد پرمضامین لکھے تھے۔
ستمبر 2017ء میں اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی وزیراعظم تھریسامے نے مختلف حوالوں سے بینظیر بھٹو  شہیدکو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ تھریسامے نے اپنی  اس دوست کے قتل کی وجوہ دو ٹوک انداز میں  بیان کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر کو بہیمانہ طریقے سے اس لئے قتل کیا گیا کہ اس نے انسانی اقدار کی بات کی تھی، وہ اقدار جو ہم سب کو عزیز ہیں۔ اسے اس لئے قتل کیا گیا کہ و ہ جمہوریت کے لئے سینہ سپر تھیں، وہ امن کی بات کرتی تھیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک خاتون تھیں۔ اور اب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق چیئرپرسن، پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کی مضبوطی کے سیاسی نظریے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ ان سے متعلق دو باتیں کبھی جھْٹلا نہیں سکتی۔ 1989 ء میں پاکستان کی سابق وزیر اعظم نے جو کچھ کہا تھا وہ آج بھی حقیقت ہے۔  ہارورڈ یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن  کا کہنا تھا  کہ بے نظیر بھٹو کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں اور اس عہدے  پر  رہتے ہوئے بچے کو جنم دینے والی بھی پہلی خاتون سیاست دان تھیں۔جسینڈا آرڈرن نے کہا کہ مجھے بھی فخر ہے کہ آج اسی مقام پر خطاب کر رہی ہوں جہاں بے نظیر بھٹو نے 1989 ء میں خطاب کیا تھا اور یہ بھی  میری خوش نصیبی ہے کہ میری بیٹی بھی 21 جون کو پیدا ہوئی جو بے نظیر کی تاریخ پیدائش ہے۔جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ ماضی کی کچھ
 چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو برسوں بعد بھی آپ کو جوڑے رکھتی ہیں۔ جیسے جون 1989ء میں پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بھی اسی ہارورڈ یونیورسٹی میں کھڑے ہو کر ’’جمہوری اقوام کو متحد ہونا ہوگا‘‘ کے عنوان پر تقریر کی تھی۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ اْس وقت بے نظیر  بھٹونے کہا تھا کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جمہوریت کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اپنی سیاسی جدوجہد، عوام کی اہمیت، نمائندہ حکومت، انسانی حقوق اور جمہوریت کی بات بھی کی تھی۔جسینڈا آرڈن نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ 2007 ء میں بے نظیر بھٹو سے جنیوا میں ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے دنیا بھر کی پروگریسیو پارٹیز کی کانفرنس میں شرکت کی لیکن افسوس 7 ماہ بعد انہیں قتل کر دیا گیا۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی تعریفیں کیے جانے پر پاکستان پیپلز پارٹی نے ان کی تعریفی ٹوئٹ کی، جسے وزیر خارجہ اور بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو نے بھی ری ٹوئٹ کیا۔بلاول بھٹو نے والدہ کی تعریفیں کرنے پر جیسنڈا آرڈرن کا شکریہ  ادا کیا اور ساتھ ہی لکھا کہ بے نظیر کو مارا  توجا سکتا ہے مگر ان کے وژن کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ان کے علاوہ دیگر سیاسی و سماجی  شخصیات  نے بھی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی تعریفیں کیں۔
بی بی شہید  کے بعد ان کے صاحبزادے پاکستان کے جوان سال  وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اپنی کامیاب سفارت کاری ،بہتر وژن اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کے ساتھ دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ بھٹو خاندان بیرون دنیا پاکستاں کی روشن پہچان ہے  اور اس پہچان کو لیکر اب بلاول میدان عمل میں  ہیں۔کیا کسی اور خاندان کو بھی اس طرح کی پذیرائی ملی؟  اپناکالم میں اس سوال پر چھوڑتا ہوں  تاکہ لوگ جان سکیں کہ اس ملک کی حقیقی لیڈر شپ کون سی ہے اور اسے کن سازشوں کے تحت  اقتدار میں نہیں آنے دیا جاتا ؟

ای پیپر دی نیشن