کوئی تو خیر کا پہلو بھی نکلے


گزشتہ دو ماہ سے عرض کرتے آ رہے تھے کہ ملکی سیاست جس طرف جا رہی ہے اس میں سوائے خسارے کے کچھ نہیں۔ سیاسی عدم برداشت نے آخر کار کوئی گل تو کھلانا تھا۔آپ لاہور میں پولیس اہلکار کی شہادت کو ہی دیکھ لیں۔ یہ درست ہے کہ سیاسی حریفوں کو دبانے کیلئے ارباب اختیار نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا لیکن حکام بالا کے احکامات بجا لانے والے اس کانسٹیبل کا کیا قصور تھا؟ کیا اس کا جرم اتنا بڑا تھا کہ اسے موت کی نیند سلا دیا جاتا؟ پولیس کانسٹیبل کمال احمد کی اہلیہ کہتی ہیں کہ’’ وقوعہ والے روز میرے شوہر شام چھ بجے ڈیوٹی سے واپس آگئے تھے۔ انہوں نے بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارا تو تھوڑی دیر بعد ہی فون آ گیا کہ آپ واپس آ جائیں ۔ آپ کی بھی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ فون سننے کے بعد میرے شوہر دوبارہ جانے کیلئے تیار ہو گئے،  پوچھا کہ کب تک واپس آئیں گے تو ان کا جواب تھا کہ میرا نہیں پتا میں کب واپس آوں گا،، کل صبح یا شام تک شاید واپس آجاوں گا‘‘۔لیکن رات 8 بجے کا ڈیوٹی پر جانے والا کمال احمد پھر کبھی دوبارہ نہیں لوٹا۔سیاسی عد م برداشت ایک اور زندگی نگل گئی۔ حالات کا ستم دیکھیے کہ ایک مرتبہ پھرکانسٹیبل کی موت پر سیاست چمکائی گئی ۔ کیا شہید پولیس اہلکار کے بچوں کو ریاست یا قاتل ان کا باپ لوٹا سکتا ہے؟ ان کی پرورش کا ذمہ دار کون ہوگا؟ برادرم آصف محمود نے مذکورہ واقعے کی دردناک اور درست منظر کشی کی ہے۔
قارئین کرام ! پے در پے ایسے واقعات کیوں پیش آرہے ہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے ۔جب بھی جمہور کی اواز کو بزور بازو دبانے کی کوشش کی گئی تواس کے نتائج انتہائی بھیانک نکلے ہیں۔ گزشتہ دو تین روز کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں جس میں سابق جسٹس ، علامہ محمد اقبال کی بہو ناصرہ جاوید کے گھر دھاوا بولنااور لاہور کی سیاسی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد کی گاڑی پر ڈنڈوں سے حملہ کرنا سر فہرست ہے۔ اس طرح کی کاررو ائیاں عوام میں غم و غصہ کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ پھر یہ عوامی غم و غصہ نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے ، قوم کے بیٹے ، بیٹیوںبشمول کمال احمد جیسے پولیس اہلکاروں کی ناحق موت پر منتج ہوتا ہے۔ اچھے دنوں کی امید لئے بھولی عوام سمجھتی ہے کہ ان کاسیاسی کردار مستقبل کو بدل سکتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا ووٹ اور ان کا کردار ایک شب خون سے رائیگاں چلا جائے گا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اپنے مفادات کی خاطر ’’اشرافیہ‘‘ اور اقتدار کے لالچی لوگ قوم کے بیٹوں اوربیٹیوں جان لینے اور جان دینے سے گریز نہیں کرتے۔ایوان اقتدار سے سرکاری افسر ایک دوست اور کلاس فیلو اکثر یہ شکوہ کرتے ہیں کہ آپ مسائل کی نشاندہی تو کر دیتے ہیں لیکن ان کا حل نہیں بتاتے، حالانکہ مضامین کے اختتامی پیرا میں حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ اپنی دانست میں کچھ مفید مشورے دیئے جا سکیں۔ بہر حال ، پہلے بھی عرض کی تھی کہ سیاسی مخالفت میں نفرت اور رویے میں شدت پسندی نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ اس منفی رجحان کے خاتمے کے لئے سیاسی رہنماوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔قوم کے رہنما ہونے کے ناتے سیاستدانوں پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کریں اور انھیں اس امر کا شعور دیں کہ جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اختلافات کی آڑ میں شائستگی کی حد سے نکل کر غیراخلاقی رویہ اختیار کیا جائے۔ سیاسی رہنماوں سے انکے کارکنان اور عوام بہت کچھ سیکھتے ہیں اس لئے سیاسی رہنماوں کو جلسے جلوسوں کے دوران تقریر کرتے ہوئے یا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسی مخالفت میں منفی رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے جس سے عوام میں اشتعال اور عدم برداشت کی سوچ جنم لے۔ اپنی گفتگو میں گالی اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے کے بجائے بہتر الفاظ کا چناو کر کے بھی سیاسی مخالفت کی جا سکتی ہے۔ کسی بھی فرد سے سیاسی اختلافات یا کسی بھی جماعت کی پالیسی کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار کے لئے بہت سارے مہذب طریقے ہیں۔ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنے رہنماوں اور کارکنوں کو سیاسی مخالفین کے خلاف غیر اخلاقی گفتگو اور غیرشائستہ عمل کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔اچھے جمہوری معاشروں میں سیاسی رہنمائوں کی جانب سے اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالیں جس سے ان کی پیروی کرنے والے سیاسی کارکنوں کی تربیت پر کوئی منفی اثرات مرتب ہوں۔ اگر اس منفی روئیے کا اب بھیسدباب نہ کیا گیا اور سیاسی مخالفت میں اس کی مزیدحوصلہ افزائی کی گئی تھی نتائج انتہائی سنگین ہوں گے اور اس وقت شاید تیر کمان سے نکل چکا ہو۔ میری وطن عزیز کے تمام کرتا دھرتائوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ اس مملکت خداداد پر کچھ رحم کریں، اسی سری لنکا نہ بنائیں۔ خدا تعالیٰ پاکستان کی خیر فرمائے۔
کوئی تو خیر کا پہلو بھی نکلے
اکیلا کس طرح یہ شر رہے گا؟

ای پیپر دی نیشن