دارلعلوم تعلیم القرآن راجہ بازار،راولپنڈی کی 1940ء میںبنیادرکھنے والے حضرت شیخ القر آن مولاناغلام اللہ خان کاآبائی تعلق ضلع کیملپورکے مشہورگاوں’’دریائ‘‘سے تھا،آپ ایک زمیندار گھرانے میںپیداہوئے،تاہم خدا تعا لیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی انہیںقرآن حکیم کی تعلیم سے لگاوپیداہوگیا،اورانہوںنے قرآن پاک کی تعلیم عربی ودیگرمضمون پڑھنے کیلیئے ہندو ستان کے علاقہ’’ڈاھبیل‘‘کارخ کیا، جہا ںانہوںنے ابتدائی تعلیم اوردیگرکتب عر بی ،فا ر سی،پڑھنے کے بعداس دورکے مشہوردینی ادا رہ ،دارلعلوم دیوبندسہارن پورسے اپنے آپ کووابستہ کیا،اوراس دورکے مشہورعالم دین اورباعمل اساتذہ مولاناسیدانورشاہ کشمیر یؒا و ر مولاناغلام رسول خانؒ،کی صحبت اور خصوصی شفقت سے اپنے تعلیمی مستقبل میںبہترین اضافہ حاصل کیا،اور پھرا نہی اساتذہ کی ہدایات اورمشورہ سے دورہ تفسیرالقرآن کیلیئے ضلع میا نوا لی کے مشہورگا وں ’’واں بچھر ا ں‘ ‘میںتفسیرکے مشہوراستادحضرت مولاناحسین علی الوانیؒ،کی خدمت میںحاضرہوگئے،جہاںترجمہ وتفسیرا لقرآن کی مزیدتعلیم حاصل کی،آپ کاذوق،شوق اورقرآن پاک کے ترجمہ وتفسیرکے ساتھ انتہائی پرخلوص تعلق کی نمایاںجھلک کودیکھتے ہوئے ان کے استاد مولانا حسین علی الوانی نے یہ فرمایاکہ ’’میر اشا گر د‘‘ غلام اللہ خان بن کرخداتعالیٰ کی توحید،نبیؐکی ختم نبوتؐ اورعظمت ناموس صحا بہ ؓواہلبیتؓکے مقام ومرتبہ کے تحفظ کیلیئے انتہا ئی بے باکی کے ساتھ کرداراداکرے گا،چنانچہ اپنے استادکی دوربین نگاہوںکی روشنی کے مطابق شیخ القرآن مولاناغلام اللہ ؎خان نے تعلیمی سسلسلہ کی تکمیل کرنے کے بعدراولپنڈی کے پراناقلعہ میںواقع درزیوںکے بازار میں غیر آ بادقدیمی مسجد کوآ باد کر نے کاآغازکیا،خداتعالیٰ کی ذات نے آپ کوبڑی شخصیت رعب ،دبد بہ، اور حو صلہ اورتدبرکے ساتھ بڑی پراثر ،گرجد ارآ وا ز عطا ء کررکھی تھی،آپ نے اپنے استادمربی ومحسن مولاناحسین علی الوانی کی ہدایت پرمتذکرہ مسجد میں درس قرآن پاک دینے کاآغا ز کیا ،او ربہت جلد اپنے اخلاص کے نتیجہ میں عو ا م کابڑ ا حلقہ قائم کرنے میںکامیاب ہو گئے ،آ پ نے ابتدائی طورپرناظرہ قرآن پا ک،ا ور حفظ قرآن پاک کی کلاسوںکااجراء کیا،اوراس دو رکے تجویدوقرآۃ کے ماہراساتذہ کی خدمات حاصل کیں،اورقرآن پاک کی تعلیم کی برکت سے ایک ہی سال کے اندراندردرس نظامی کی کلاسوںکابھی اجراء کردیاگیا،1934ء میںمجلس احراراسلام میںباقاعدہ شمولیت اختیارکرکے شعبہ تبلیغ ،ختم نبوتؐکے پلیٹ فارم سے شہرشہر ،نگرنگر،عوامی جلسوںسے خطاب کرنے لگے،آپ کی تقاریرنے مرزائیوں کوخاصا پر یشا ن کر د یا، تاہم مولاناغلام اللہ خانؒاپنی خاندانی دلیری اوردینی برکت کے نتیجہ میںاپنے موقف پرڈٹ گئے،اورقیام پاکستان کے بعد 1953ء میںمرزائیوںکے خلاف چلنے والی تحریک ختم نبوت میںصف اول کاکر دا را دا کیا ،1956ء میں پشاورکے مقام پرآپ پرقاتلانہ حملہ کیا گیا ،جس میںآپ شدیدزخمی ہوئے ،لیکن قدرت نے ان سے توحیدوسنت ؐکی خاطربڑاکام لیناتھا،حملہ آور، اپنے مشن میںکامیاب نہ ہوسکے ،1957 میںلیاقت باغ راولپنڈی میں مولا نا سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے مولاناغلام اللہ خان کی ولولہ انگیزتقریرپرانہیںبہت شاندارالفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ،مولانا غلام اللہ خان کلمہ توحید لاالہ الاللہ کی جب اپنے مخصوص اندازمیںتشریح بیان کیاکرتے تھے توعقائدباطلہ رکھنے والوںکے دل دھل جایاکرتے تھے۔ لاہورمیںشیخ التفسیر مولا نااحمدعلی لاہوریؒ،گجرات میںسیدعنایت اللہ شاہ بخاریؒاورراولپنڈی میں مولاناغلام اللہ خانؒ اللہ کاقرآن اورنبی ؐکی ختم نبوت کی حقیقتوںکوبڑی جرائت اوربہادری کے ساتھ بیان کرتے رہے،اورجمعہ المبارک کے دن مولاناغلام اللہ خانؒکی مسجدکے وسیع صحن میںھزاروںکامجمع ان کی تقریرسننتا،راولپنڈی کے مشہورلیاقت باغ میںعیدالفطر،اورعیدالاضحی کے موقع پرشیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان بہت بڑے اجتماع میںعیدین کاخطبہ ارشادفرماتے،قبل ازیںلیاقت باغ کے وسیع میدان میںشیخ القرآن کی ولولہ انگیزتقریراورحالات حاضرہ پرخطاب سامعین کے ایمان کوگرمادیتاتھا،شیخ القرآن نے تمام مذہبی تحاریک میںبڑھ چڑھ کرحصہ لیا،اور،ملکی سطح پرفتنہ قادیانیت کے خلاف اوردیگرمذہبی تحریکوںمیںآپ کادارلعلوم ایک مرکزی ہیڈکوارٹرکے طورپرخدمات انجام دیتارہا،ایوبی دورحکومت میںکلمہ حق بلندکرنے کی پاداش میںاس وقت کی فوجی عدالتوںنے 1958ء تا1968ء دومرتبہ انہیںسزائیںدیں،جبکہ 1969ء تا1971ء میںیحی خان کے دور میںبھی آپ پرسخت پابندیاںعائدکی گئیں،تاہم مولاناغلام اللہ خان نے اپنی مومنانہ بصیرت سے حالات کی سختیوںکا استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا،1974ء میںبھٹودور میںچلنے والی تحریک ختم نبوت میںتمام مرکزی قائدین دارلعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی میںہی مقیم رہے،اورمجلس عمل تحفظ ختم نبوتؐکے تمام قائدین مولانا یوسف بنوریؒ،مولانامفتی محمودؒ،مولاناشاہ احمدنورانیؒ ،مولانامظفرعلی شمسیؒ،مولاناتاج محمودفیصل آبادیؒ، مولانا منظوراحمدچینیوٹیؒ،نوابزادہ نصراللہ خانؒ، مجاہد ملت علامہ عبدالستارخان نیازی ؒ،مولانا اجمل خان لاہوریؒ،علامہ احسان الہی ظہیرشہیدؒ، مولاناغلام علی اوکاڑویؒ،مولانانجم االحسن کرارویؒ پشاور،آغاشورش کاشمیریؒ،مولاناحافظ عبدالقادرروپڑیؒ،مولاناغلام غوث ھزارویؒ،سمیت دیگرجید علماء کرام ختم نبوتؐکے مرکزی جلسوںسے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کی میزبانی میںھزاروںکے اجتماع سے خطاب کرتے رہے،مولاناغلام اللہ خان کی آوازحق کودبانے کیلیئے متعددبارانہیںراولپنڈی سے ضلع کیمل پورپابند کردیاگیا،اوران کی اپنی رہائش گاہ سے باہر آمدورفت پرمکمل پابندی عائدکردی گئی۔،تاہم شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان نے اپنی رہائش گاہ کے قریب دریاگاوںمیںمسجدتعمیرکرکے فوری طورپروہاںدرس قرآن کے سلسلے کاآغازکردیا،قرآن پاک سے عشق اورلگاو،رکھنے والوںکی بڑی تعداد،راولپنڈی اوردوسرے علاقوںسے ضلع کیملپور،دریاگاوںمیںجاکرشیخ کے مواضع حسنہ سے فیضیاب ہوتے رہے،دارلعلوم دیوبندکے مہتمم اورشیخ الحدیث مولاناقاری محمدطیبؒاوردارلعلوم کراچی کے بانی مفتی اعظم مولانامفتی محمدشفیعؒ،بھی جب کبھی راولپنڈی تشریف لاتے توان کاقیام مولاناغلام اللہ خان کے ہاںہی یقینی بنایاجاتا،شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان کے 22رجب تا19رمضان تک دورہ تفسیرالقرآن میںافغانستان،انڈیا،سوڈان،اوراندرون ملک کے دور،ونزدیک کے تمام علاقوں سے ھزاروںکی تعدادمیںشاگردباقاعدہ داخلہ لے کرعلمی پیاس بجھاتے،مولاناغلام للہ خان کونہ صرف اردو،پشتو،بلکہ فارسی اورعربی پربھی بہت زیادہ عبورحاصل تھا،اس لیئے مختلف علاقوںمیںبولی جانے والی زبانوںکوبھی شیخ القرآن طلبہ کوسمجھانے کیلیئے بڑی آسانی کے ساتھ بروئے کارلاتے،آپ کی توحیدوسنت کیلیئے دی جانے والی عظیم خدمات کی تفیصیلات سن کراپنے دورکے سعودی عرب کے بادشاہ جلالہ الملک شاہ فیصل نے راولپنڈی کے شیخ القرآن کوبیت اللہ شریف عمرہ اورحج کی غرض سے حاضری کے موقع پر’’مطاف‘‘کے احاطہ میںفجرکی نمازکے بعداردوز بان میںدرس قرآن پاک دینے کی خصوصی اجازت اوراعزازسے نوازا،اس طرح شیخ القرآن مولاناغلام للہ خان راولپنڈی پاکستان کے وہ واحدخوش نصیب خطیب تھے،کہ جوجب بھی عمرہ اورحج کے موقع پر مکۃ المکرمہ تشریف لے جاتے،توا ن کابیت اللہ شریف میںباقاعدہ درس کاسلسلہ جاری رہتا۔مولاناغلام اللہ خانؒ26مئی 1980ء دوبئی متحدہ عرب امارات کی بڑی مسجدمیںرات کے وقت اللہ پاک کاقرآن بیان کرتے کرتے اچانک عارضہ قلب پیش آنے پرکلمہ شہادت کی سعادت حاصل کرکے داعی اجل سے جاملے،دوسرے روزصبح ان کی میت کوپاکستان راولپنڈی بذریعہ جہازپہنچایاگیا،27مئی 1980ء کوراولپنڈی لیاقت باغ میںنمازجنازہ اداکی گئی،جس میںتاحدنگاہ عوام نے بڑی تعدادمیںشرکت کی،بعدازاںشیخ القرآن مولاناغلام اللہ خان کی میت کوانکی زندگی میںقائم کردہ چھوئی روڈاٹک دارلعلوم اشاعت الاسلام لے جایاگیا،جہاںاٹک کے مقامی لوگوںنے نمازجنازہ کی ادائگی کے بعددارلعلوم کی مسجدکے صحن میںان کی تدفین کردی ۔ ان کے بعدان کے قائم کردہ معروف دینی ادارہ دارلعلوم تعلیم القرآن کوان کے صاحبزادے مولانااشرف علی پورے اہتمام اورخلوص کے ساتھ قائم کیئے ہوئے ہیں،اورشیخ القرآن کی زندگی میںروشن کی گئی شمع کوروشن رکھنے میںاپنے حصے کاکرداراداکیئے جارہے ہیں
کیپشن
…ختم نبوت کانفرنس سے سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردارعبدالقیوم خطاب کررہے ہیں، سٹیج پر حضرت خواجہ خان تشریف فرماہیں
…مرکزی مجلس عمل تحفظ کے اجلاس منظر، مولانامفتی محمود، مولاناغلام اللہ خان کے حجرے میں ، تاجر لیڈرشیخ شریف بھی موجود ہیں
…جانشین شیخ القرآن مولانااشرف علی
یادرفتگاں…شیخ القرآن مولاناغلام اللہ خانؒ
May 30, 2022