صرف یومِ تکبیر نہ منائیں، ملک کو حقیقی قوت بنائیں

پاکستان کو جوہری قوت بنے ربع صدی مکمل ہونے پر اتوار کو ملک بھر میں ’یومِ تکبیر‘ ملی جوش و جذبے سے منایا گیا۔ ملک کے مختلف شہروں میں اس سلسلے میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ 28 مئی کا دن ہماری قومی زندگی کے حوالے سے یقینا بہت اہمیت کا حامل ہے اور خطے میں جو تھوڑا بہت طاقت کا توازن قائم ہوا ہے وہ اسی دن کی وجہ سے ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف تک سیاسی قیادت نے ملک کو جوہری قوت کا حامل بنانے کے مسلسل ایک خواب کی آبیاری کی جس کے خاکے میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے بانی چیئرمین نذیر احمد سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان تک بہت سے سائنس دانوں اور انجینئرز نے مل کر رنگ بھرے۔ اس سلسلے میں عسکری قیادت کے کردار کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور اس پورے سلسلے میں قوم کی دعائیں بھی مسلسل شاملِ حال رہیں۔ یوں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا سہرا پوری قوم کے سر ہے۔
اتوار کو ’یومِ تکبیر‘ مناتے ہوئے قوم نے جس جوش و جذبے کا اظہار کیا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دن ہمارے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کا یہ کہنا درست ہے کہ یومِ تکبیر محض ایک دن نہیں بلکہ ہماری قوم کی کم سے کم دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے کی جانب شاندار سفر کی کہانی ہے۔ اس عظیم کامیابی کا حصول قومی طاقت کے تمام مراکز کے درمیان اتفاق رائے سے ممکن ہوا۔ اس دن پاکستان نے اپنے دفاع کے لیے ایک ریڈ لائن مقرر کی اور خطہ میں امن و استحکام کے لیے کھیل کے اصول وضع کیے۔سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کے جوہری پروگرام کا آغاز کیا اور میرے قائد محمد نواز شریف نے تمام دباو اور لالچ کو ٹھکراتے ہوئے ملک کو ایٹمی طاقت بنایا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری مسلح افواج نے ہمارے دشمنوں کے مذموم عزائم کے خلاف اس پروگرام کی سرپرستی اور حفاظت کی ذمہ داری نبھائی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یومِ تکبیر کے موقع پر پیغام میں قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کے دن بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے ایٹمی تجربات کیے، یہ تجربات خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر تھے۔ انھوں نے کہا کہ جوہری صلاحیت کا حصول واقعی ایک قابل ذکر کارنامہ تھا، اس کے لیے ہمارے سائنس دان، انجینئرز، اور اس وقت کی سیاسی اور عسکری قیادت قابلِ تحسین ہیں۔ صدر عارف علوی نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ آئیں، ہم اپنے لوگوں کی فکری ترقی میں سرمایہ کاری کرنے کا عہد کریں۔ اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے سائبر سکیورٹی کو مضبوط بنا کر پاکستان کو ایک محفوظ ملک بنانے کا عہد کریں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ہم اپنی اجتماعی کوششوں سے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
ادھر، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس سلسلے میں جاری اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام خطے میں امن و استحکام کے لیے ہے۔ جوہری پروگرام پاکستانی قوم کے لیے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عظیم تحفہ ہے ، شہید بھٹو نے کہا تھا ہم گھاس کھا کر بھی گزارا کرلیں گے لیکن پاکستان کو ایٹمی قوت بناکر رہیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا مشن تھا، شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے بطور وزیراعظم ملک کے جوہری پروگرام کی حفاظت کی اور آگے بڑھایا، بھارت نے دھماکے کیے تو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو بطور اپوزیشن لیڈر ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں اور مطالبہ کیا حکومت بھی فوراً ایٹمی دھماکے کرے۔بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ایٹمی  دھماکوں کے معاملے پر اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی نواز شریف حکومت کی حمایت کی، جوہری پروگرام کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی اپنے شہید قائدین کے نقش قدم پر چل رہی ہے، پاکستان کم از کم قابل اعتماد دفاعی صلاحیت کی پالیسی پر سختی سے عمل پیرا ہے۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کے دفاع کے سلسلے میں ہماری سیاسی قیادت ہی نہیں پوری قوم یک جہت اور متحد ہے۔ اس حوالے سے مرکزی مسلم لیگ کی لاہور میں ہونے والی عظیم الشان تکبیر کانفرنس سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین، وکلاء اور تاجر رہنمائوں نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ قوم کا ہر فرد دفاعِ وطن کے معاملے میں افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ تکبیر کانفرنس کے شرکاء نے خطاب کرتے ہوئے جوہری صلاحیت کو ملک کے ماتھے کا جھومر قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف یا کسی بھی عالمی قوت کے دبائو پر ایٹمی پروگرام سے دستبرداری نامنظور ہے۔ ہم بھوکے رہ لیں گے لیکن سی ٹی بی ٹی جیسے کسی معاہدہ پر دستخط قبول نہیں کریں گے۔ ہم دشمن کا کوئی بھی ایجنڈا پاکستان میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ کانفرنس کے شرکاء نے دفاعی اداروں اور تنصیبات پر حملوں کو پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیتے ہوئے ان میں ملوث عناصر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا۔
 یومِ تکبیر کا ملک بھر میں منایا جانا بہت اچھی بات ہے لیکن ملک کو حقیقی قوت بنانے کے لیے ہمیں مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک جن اقتصادی مسائل کا شکار ہے ان کی موجودگی پاکستان کے دفاعی و تزویراتی معاملات کے راستے میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اس صورتحال کو مزید بگاڑنے کے لیے جلتی پر تیل کے مصداق ہے۔ سیاسی قیادت کو چاہیے کہ اپنی انا اور ذاتی مفادات کو ایک طرف رکھتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے اور مل کر ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ملک کا دفاع اسی وقت پوری طرح ناقابلِ تسخیر ہوسکتا ہے جب ملک اقتصادی طور پر بھی مضبوط ہو اور سیاسی معاملات بھی مستحکم رہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...