سیاسی درجہ حرارت معیشت اور امن کیلئے اچھا نہیں فاصلے کم کریں: چیف جسٹس

May 30, 2023

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ میں  پنجاب انتخابات کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہوگا، ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، میں نے انکوائری کمیشن کے لیے خود کو نامزد نہیں کرنا تھا، لیکن کسی اور جج سے تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں، سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ معیشت اور امن و امان کے لیے اچھا نہیں، آپ موجودہ حالات میں پل کا کردار ادا کریں۔ سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں نظرثانی درخواست سے متعلق نئے قانون کے پیش نظر سماعت جمعرات تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے آڈیو لیکس جوڈیشل کمیشن سے متعلق حکومت سے ہدایات لینے کا حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سپریم کورٹ میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرِ ثانی درخواست کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آئے۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے دلائل کا آغاز کرتے اٹارنی جنرل عثمان منصور روسٹرم پر آئے اور عدالت سے استدعا کی کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نظرِ ثانی ایکٹ بن چکا ہے، صدرِ مملکت نے سپریم کورٹ نظرِ ثانی ایکٹ پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اسی لیے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے نظرِ ثانی اختیار کو وسیع کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے قانون کو لاگو کرتی ہے، سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ اختیار کے کیسز میں نظرِ ثانی ہونی چاہیے، سپریم کورٹ کے ہی فیصلے آرٹیکل 187 کے تحت نظرِ ثانی کا دائرہ اختیار بڑھانے کی راہ دے رہے ہیں، جج کی جانبداری کا بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے، کیوریٹیو ریویو کا جو معاملہ آپ نے اٹھایا اس کو بھی دیکھ رہے ہیں، تحریکِ انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہو جائے گا، آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا، ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا۔ فاضل چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، سیاسی درجہ حرارت معیشت اور امن و امان کے لیے اچھا نہیں ہے، یہ نیا قانون بہت دلچسپ ہے، ہم 184/3 کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں، اس کی ضرورت بھی ہے اور ہمارے فیصلے بھی ہیں، آپ نے انکوائری کمیشن میں ہمارے آرڈر کو پڑھا، ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم عدلیہ کی آزادی اور تحفظ چاہتے ہیں، عدلیہ اور انتظامیہ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے ہیں، یہ رابطہ شفاف ہونا چاہیے، یہ رابطہ خفیہ یا زبردستی نہیں ہونا چاہیے، حکومت روایات کو نہ توڑے، مناسب طریقہ کار کے تحت رابطہ کرے، یقیناً کمیشن میں نہیں بیٹھتا کسی اور جج کو ہی نامزد کرتا، میمو گیٹ کمیشن، ایبٹ آباد کمیشن اور سلیم شہزاد کمیشن کے نوٹیفکیشن آپ کے سامنے ہیں، اس سے پہلے بننے والے تمام کمیشن چیف جسٹس کی منظوری یا اجازت سے بنائے گئے، ہمیشہ ججز کے نام چیف جسٹس کی منظوری سے ہوئے، اہم نکتہ ہے کہ چیف جسٹس سے مشاورت کی روایت کو کیوں توڑ دیا؟ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ دوسری جانب سے کون آیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ علی ظفر آج نظر نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ کیا آپ نے علی ظفر کو کچھ برا کہا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے بیرسٹر علی ظفر کو کچھ نہیں کہا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ پل کا کردار ادا کریں، آئین کے تمام اداروں کو احترام دیا جانا چاہیے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں حکومت نے نیا عدالتی دائرہ اختیار متعارف کرایا، حکومت نے عدالت کے انتظامی امور میں بھی مداخلت کی کوشش کی، خوشی ہے کہ موجودہ قانون صرف 184 (3) کے بارے میں ہے، سب کو دوبارہ سوچنا ہو گا، 9 مئی کے واقعات کے بعد سلور لائننگ تلاش کریں، آپس میں فاصلے کم کریں، سسٹم میں توازن اور امن لے کر آئیں، درست راستے کا انتخاب کریں۔ جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فی الحال سماعت ملتوی کر رہے ہیں۔ بعد ازاں عدالت نے پنجاب الیکشن نظرِ ثانی کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

مزیدخبریں