بیرسٹر گوہر کا کمال، عارف علوی کا خیال اور ہمارے حالات!!!!!

May 30, 2024

محمد اکرم چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے اپنے الگ ہی زاویے، خیالات، قواعد و ضوابط و قوانین ہیں، یہ اپنے لیے کچھ اور سوچتے ہیں، ووٹرز کے لیے کچھ، پاکستان میں رہنے والوں کے لیے ان کی سوچ کچھ اور ہے، پاکستان سے باہر بسنے والوں کے لیے ان کی سوچ کچھ اور ہے۔ اگر کوئی کام یہ خود کرتے ہیں تو اسے ٹھیک ثابت کرنے کے لیے ہر دلیل ڈھونڈتے ہیں اور اگر وہی کوئی اور کرے تو اسے غلط ثابت کرنے کے لیے ہر مثال پیش کریں گے۔ ان میں خاصیت پائی جاتی ہے کہ ایک وقت میں یہ جس کام کی مخالفت کر رہے ہوتے ہیں عین اسی وقت میں وہ کام خود بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسی عملی مثالیں آپ کو شاید کہیں اور مل سکیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کے ایسے ہی رویوں کی وجہ سے ملک میں بے چینی، انتشار اور بدامنی بھی ہے۔ زیادہ وقت نہیں گذرا بانی پاکستان تحریک انصاف کا ایک آرٹیکل غیر ملکی میڈیا میں شائع ہوا سب نے بڑھ چڑھ کر اس تحریر کے فضائل بیان کیے، اسے انقلابی سوچ اور نجانے کیا کیا قرار دیا۔ دو روز قبل ہی بیرسٹر سیف نے اس آرٹیکل کو اپنے لیڈر کے تعمیری ذہن کا نمونہ قرار دیا اور اسے بنیاد بنا کر دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو نشانہ بھی بنا ڈالا۔ اب آئیں اس ویڈیو پر جو بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے شیئر ہوئی، اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے ریاستی اداروں سے بانی پی ٹی آئی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اب آپ ذرہ برابر بھی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں تو یقینا حیران ہوں گے کہ ایک آرٹیکل پر قلابازیاں لگانے والے سیاست دان ایک ویڈیو پوسٹ ہونے پر کیسے 
"یو ٹرن" لیتے ہیں۔ یہی حال بیرسٹر گوہر کا بھی ہے وہ اس وقت پارٹی چیئرمین ہیں اور بانی چیئرمین کی ترجمانی بھی کرتے ہیں، ان کے لیے بات بھی کرتے ہیں، باامر مجبوری انہیں اس عہدے پر لوگ قبول بھی کرتے ہیں، بہت سے ایسے بھی ہیں جو انہیں قبول نہیں بھی کرتے لیکن پھر بھی بیرسٹر گوہر کو وقتی طور پر چیئرمین ماننا ہی پڑتا ہے۔ اب جس ویڈیو سے انہوں نے ہاتھ کھڑے کئے ہیں بیرسٹر سیف اسی ویڈیو کو بنیاد بنا کر اس کے ردعمل میں پریس کانفرنس کرنے والی حکومتی شخصیات کو یہ کہتے ہوئے بھی سنے جاتے ہیں کہ حکومتی وزراء لکھا لکھایا سکرپٹ پڑھتے رہے۔ کمال کے لوگ ہیں یار۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹرگوہر کہتے ہیں کہ "عمران خان کا اپنے اکاؤنٹ سے فوج کے موازنے سے متعلق 1971 سے متعلق پوسٹ ہونے والی ویڈیو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عمران خان نے نہ اس پوسٹ کا مواد دیکھا، نہ باقی چیزیں دیکھیں۔ جو موازنہ کرنا تھا وہ سیاسی تناظر میں تھا، یہ فوج کے بارے میں نہیں تھا۔" بیرسٹر صاحب کیا یہی آزادی اور رعایت کسی اور شخص کو بھی دے سکتے ہیں، انہی بنیادی چیزوں پر جو کچھ بھی انہوں نے اپنے بانی کو سہولت دی ہے کہ ان کے اکاؤنٹ سے شیئر ہونے والے مواد سے ان کے ہر قسم کے تعلق کی ہی نفی کر دی ہے۔ ذرا سوچئے ان کا اکاؤنٹ کون دیکھ رہا ہے، کون چلا رہا ہے اور وہ اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی مرضی کے بغیر وہاں کچھ بھی پوسٹ کر دیا جائے، کیا وہ اکاونٹ بانی پی ٹی آئی کا نہیں ہے۔ کون اسے تسلیم کرے گا، کون مانے گا کہ بانی پی ٹی آئی اس سے لاتعلق ہیں۔ بہرحال یہ ایک قانونی معاملہ بھی ہے۔ بیرسٹر گوہر کی اس وضاحت کو مانا جائے تو پھر شرجیل میمن کا مطالبہ جائز معلوم ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پابندی لگائی جائے۔ جہاں تک تعلق ایسے مواد سے نفرت پھیلنے کا ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے اور دشمن ایسے بیانیے کا فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ 
سیاست دانوں کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو انیس سو اکہتر والے حالات میں دھکیلنے سے گریز کریں، پی ٹی آئی کے موجودہ چیئرمین کی اس وضاحت کے بعد یہ تو یقین ہو چلا ہے کہ غور و فکر اور سوچنے سمجھنے کے معاملے میں ان لوگوں پر زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی سوچ میں نہ تو ٹھہراو ہے نہ ہی یہ لوگ ملک کے سیاسی حالات اور ملک دشمنوں کی سازشوں کو دیکھتے ہیں۔ ان سب کے نزدیک اپنا سیاسی مفاد سب سے اہم ہے اور یہ اپنے سیاسی مفادات کو حاصل کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ماضی میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں لیکن بیرسٹر گوہر کی اس وضاحت نے پی ٹی آئی کی مفاد پرستی پر مہر لگا دی ہے۔ اگر آج انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے لاتعلقی کی ہے تو یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
سابق صدر عارف علوی کہتے ہیں کہ "ہم اداروں کے خلاف نہیں افراد کے خلاف ہیں۔ میڈیا، عدلیہ اور ریاست بند گلی میں ہو تو کوئی بھی نقصان کر سکتا ہے، بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ 1971 میں یحییٰ خان کی وجہ سے نقصان ہوا، بھٹو نے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو شائع ہونے نہیں دیا تاکہ پردہ رہے، ہم نے حمود الرحمن کمیشن اور کارگل سے کچھ نہیں سیکھا۔جب پریشر پڑے گا تو پریشر کوکر پھٹے گا، یہ معیشت ٹھیک نہیں ہوگی جب تک ساتھ کھڑے نہیں ہونگے۔"
جناب سابق صدر صاحب 1971 اور کارگل تو تھوڑا پرانا ہے آپ اپنی جماعت سے پوچھیں انہوں نے 2013 اور 2018 کے انتخابات سے کیا سیکھا ہے، تیسری مرتبہ خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی ہے کیا سیکھا ہے، برسوں سے اداروں کی معاونت، حمایت اور تعاون سے کیا سیکھا ہے، پاکستان کے لوگوں نے سخت موسموں میں آپ کے لیے کام کیا اور آپ نے انہیں نظر انداز کیا ان تجربات سے آپ نے کیا سیکھا ہے۔ کچھ خدا کا خوف کریں، آپ سیاسی اختلافات کی وجہ سے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہتا لیکن آپ یہ گوارا کرتے ہیں کہ معیشت کمزور ہوتی رہے۔ ذرا قوم کو بتائیں آپ کس کے ساتھ ہیں۔ ویسے علوی صاحب یاد رکھیں اس مٹی سے بے وفائی بہت گھاٹے کا سودا ہے۔ اس ملک کی معیشت دوبارہ مضبوط ہو گی، مسائل حل ہوں گے، سازشیں ناکام ہوں گی اور ملک کے خلاف سازش کرنے والے بھی انجام کو پہنچیں گے۔ وہ سازشی اندرونی ہیں یا بیرونی کوئی بھی نہیں بچ پائے گا۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
اک محبت کے عوض ارض و سما دے دوں گا
تجھ سے کافر کو تو میں اپنا خدا دے دوں گا
جستجو بھی مرا فن ہے مرے بچھڑے ہوئے دوست
جو  بھی  در  بند  ملا  اس  پہ  صدا  دے  دوں گا
ایک پل بھی ترے پہلو میں جو مل جائے تو میں
اپنے  اشکوں  سے  اسے  آب  بقا  دے  دوں  گا
رخ بدل دوں گا صبا کا ترے کوچے کی طرف
اور  طوفان  کو  اپنا  ہی  پتا  دے   دوں  گا
جب بھی آئیں مرے ہاتھوں میں رتوں کی باگیں
برف  کو  دھوپ  تو صحرا  کو  گھٹا  دے دوں گا
تو  کرم  کر  نہیں سکتا تو ستم توڑ کے دیکھ
میں ترے ظلم کو بھی حسن ادا دے دوں گا
ختم   گر   ہو   نہ   سکی  عذر   تراشی  تیری
اک صدی تک تجھے جینے کی دعا دے دوں گا

مزیدخبریں