’’ہتک عزت بل‘‘ اور برطانوی انتخابات

پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے حالیہ ’’ہتک عزت بل‘‘ کو جس روز سے قانونی شکل دیکر مبینہ طور پر فوری نافذالعمل کرنے کے احکامات جاری کئے گئے ہیں‘ میں اسی دن سے وطن عزیز سے ساڑھے پانچ ہزار میل دور ہوتے ہوئے ایک انجانی سی پریشانی میں مبتلا ہوں۔ لفظ ’’انجانی‘‘ کے بارے میں آپ یقیناً جاننا چاہیں گے کہ یہ لفظ لکھنے کی ضرورت مجھے آخر کیوں محسوس ہوئی۔ وجہ یہ کہ اپنے پاکستان کے حوالے سے کسی بھی پھیلائی جھوٹی توہین آمیز غیرمتوازن رپورٹ اور کسی بھی طرح کی ’’سینہ گزٹ‘‘ خبر سے سمجھوتہ یا مفاہمت کرنا میرے صحافتی اصولوں اور ایمان کے قطعی منافی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز کو ’’ماں‘‘ کا درجہ دے چکا ہوں اس لئے وطن کے حوالے سے جب بھی کوئی معترضہ یا متنازعہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے‘ وہ میرے لئے پریشان کن ہو جاتی ہے اور ایسے حالات میں بالعموم میں لفظ ’’انجانی‘‘ استعمال کرتا ہوں۔ آج کے کالم میں بھی انجانی پریشانی کا ذکر اس لئے کرنے جا رہا ہوں کہ ’’پیکا قانون‘‘ کی بنیاد پر  سوشل میڈیا کے غلط اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کو فوری طور پر روکنے کیلئے پنجاب اسمبلی نے جو فیصلہ کیا‘ وہ بلاشبہ درست‘ مگر! ہتک عزت کے قانون کی منظوری سے قبل اس قانون سے وابستہ سٹیک ہولڈرز سمیت اگر دیگر شعبوں سے متعلقہ افراد کی تجاویز بھی حاصل کرلی جاتیں‘ سوشل میڈیا سے وابستہ افراد اور بالخصوص صحافیوں کے نمائندگان کو اعتماد میں لے کر اگر ہتک عزت قانون کو حتمی شکل دی جاتی تو نتائج کہیں زیادہ مثبت اور قابل عمل سامنے آسکتے تھے۔ سب سے پہلے تو یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ جھوٹی‘ فیک‘ غیرحقیقی‘ جعلی‘ مصنوعی اور نقلی خبریں ہوتی کیا ہیں؟ ہمارے معاشرے میں کسی طاقتور اور مالدار شخص کے مقابلے میں سفید پوش اور غریب عزت دار کی پگڑی اچھالنا چونکہ آج بھی سب سے زیادہ آسان تصور کیا جاتا ہے‘ اس لئے ایسی خبروں اور ایسی رپورٹوں میں عوامی پسندیدگی کی ریشو امیر طبقے کے بجائے غریب اور نادار افراد میں کہیں زیادہ پائی جاتی ہے۔ 
ملک سیاسی ہیجان کا چونکہ پہلے ہی بری طرح شکار ہے اس لئے ایسے حالات میں آزادی اظہار رائے کی اہمیت کے تحفظ کیلئے عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ قانون کے اطلاق سے قبل یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ جھوٹی اور فیک نیوز پھیلانے والے آخر وہ کونسے عناصر ہیں جو پاکستان کی سالمیت و استحکام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں؟ ملک میں سنسنی پھیلانے اور حقائق کے برعکس  خبریں دینے والے پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا سمیت یوٹیوبرز‘ ٹک ٹاکرز‘ فیس بک اور انسٹاگرام کا ہر حال میں فوری محاسبہ ہونا چاہیے مگر! ہتک عزت کے اس قانون کو عملی شکل دینے کیلئے صحافتی اداروں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو اعتماد میں لینا ضروری تھا جو نہیں لیا گیا۔ پنجاب کے بیشتر صحافیوں ‘ کالم نگاروں‘ تجزیہ نگاروں اور اینکروں کی یہ سوچ ہے کہ حکومت پنجاب کا ہتک عزت قانون کی توثیق کرنا اپنے مخالفین کی آواز دبانا ہے تاکہ وہ اصل حقائق کو اجاگر نہ کر سکیں۔ ’’ہتک عزت‘‘ کا ہمارے ہاں پہلے سے قانون موجود ہے مگر اب اس میں ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں جن کے بارے میں میڈیا نمائندوں کی رائے نہیں لی گئی اور یوں قانون کے اطلاق کے ساتھ ہی فیک‘ جھوٹی اور جعلی خبریں پھیلانے والوں کے ساتھ حکومت مخالف صحافیوں کی آواز بھی دبا دی جائیگی۔ 
حکومت پنجاب کو  چاہیے تھا کہ صحافیوں کے تحفظات دور کرنے کے بعد انکی تجاویز کی روشنی میں یہ بل پاس کرتی مگر اب جب اس قانون کو حتمی شکل دی جا چکی ہے تو حکومت کا یہ فرض ہے کہ صحافیوں‘ کالم نگاروں‘ اور الیکٹرانک میڈیا نمائندگان کی بلاتاخیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنا کر اس معاملے کو سلجھائے کہ وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’ڈلہے بیروں‘ کا ابھی بھی کچھ نہیں گیا‘‘ادھر برطانیہ میں بھی موسم بہار کے ساتھ اب ’’سیاسی موسم‘‘ کا آغاز ہو چکا ہے۔ وزیراعظم رشی سنک جنہوں نے 25 اکتوبر 2022ء کو اپنی پیشرو وزیراعظمTurss Liz  کے مستعفی ہونے کے بعد بلامقابلہ وزیراعظم کا عہدہ سنھبالا‘ انہوں نے گذشتہ دنوں 74 سالہ شاہ برطانیہ سوم سے ملاقات اور ان کی اجازت کے بعد برطانیہ میں عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا. کنزرویٹو پارٹی کے بائیں بازو کے ارکان‘ لیبر پارٹی کے لیڈرKeir Starmer Sir ‘ لیبر ڈیموکریٹک پارٹی‘ گرین پارٹی اور ورکر پارٹی کے لیڈر جارج گیلوے کا یہ مطالبہ تھا کہ جلد از جلد الیکشن کروائے جائیں تاکہ برطانوی عوام کو موجودہ ٹوری حکومت سے نجات دلائی جا سکے۔ انتخابات میں اب چونکہ پانچ ہفتے باقی ہیں‘ اس لئے سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ روایتی طور پر بڑی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو ٹیلی ویڑن پر اپنی پالیسیوں پر بحث کا موقع دیا جائیگا تاکہ عوام ووٹ کاسٹ کرنے سے قبل درست پارٹی کا انتخاب کر سکیں۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں‘ لیبر پارٹی موجودہ حکمران ٹوری پارٹی سے 27 پوائنٹ آگے ہے جبکہ دوسرے نمبر پر لیبر ڈیموکریٹک سکاٹش نیشنل اور گرین پارٹی عوامی مقبولیت میں مزید پوائنٹ حاصل کر رہی ہے۔ 
دوسری جانب لیبر پارٹی کے سابق لیڈرCorbyn Jerey نے جو 1983ء سے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوتے چلے آرہے ہیں اور جو موجودہ لیڈر سے مبینہ طور پر نالاں ہیں‘ اس مرتبہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ 74 سالہ کوربن کو لیبر پارٹی کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ جیرمی کوربن اپنی سابقہ لیبر پارٹی کے امیدوار کیخلاف بطور آزاد امیدوار کھڑے ہونے جا رہے ہیں۔ ادھر کیبنٹ وزیر Gove نے جو جرنلسٹ اور بی بی سی اور دی ٹائم کے کالم نگار بھی رہ چکے ہیں‘ موجودہ وزیراعظم رشی سنک کو دوبارہ وزیراعظم دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے اپنی کوششوں کا آغاز کر دیاہے۔ Gove سمیت کنزرویٹو پارٹی کے 70 لیبر پارٹی کے 20 اور لیبر ڈیموکریٹک پارٹی کے 9 ارکان پارلیمنٹ اس مرتبہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...