انسانی حقوق کا مسئلہ کسی طرح سے بھی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے لیکن دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اسے پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔چونکہ بات دوسرے انسانوں کو حقوق دینے کی ہے جن کے حقوق کوبسا اوقات طاقتور انسانی گروہ، جاگیردار، تاجر، صنعت کار، حکمران طبقات اور ریاستوں وغیرہ نے سلب کیا ہوتا ہے۔یہ حلقے ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ معاملہ کو پیچیدہ در پیچیدہ بنا دیا جائے تا کہ عوام کو مسئلہ کی تشخیص یا مسئلہ کی سمجھ ہی نہ آسکے اور نہ ہی وہ اس کے قابل عمل حل کی طرف بڑھ سکیں۔انسانی حقوق کی تحریک کے ادنیٰ کارکن اور طالب علم کی حیثیت سے راقم کی کوشش ہے کہ ارتقائی نقطہ نظر سے مسئلہ کو آسان زبان میں اور سہل طریقہ سے سمجھا ، سمجھایا اور سلجھایا جائے۔ہماری آج کی معروضات اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جو صرف قرون وسطہ تک کا ہی احاطہ کریں گی۔
قرون وسطیٰ سے پہلے کے زمانے کو قرون اولیٰ کہا جاتا ہے۔ قرون اولیٰ میں ہمیں حقوق یا انسانی حقوق کے تصوارات کے شواہد نہیں ملتے یا ہو سکتا ہے کہ عوام یا لوگوں کے زبانی کلامی تصورات تو ہوں مگر اس دور میں فن تحریر نہ ہونے کے باعث وہ ہم تک نہیں پہنچ سکے۔
فی زمانہ جب کبھی یا کہیں بھی انسانی حقوق کا تذکرہ ہوتا ہے تو دماغ میں فوری طور پر اقوام متحدہ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کا تصور ہی ابھرتا ہے۔یہ تصورخاصی حد تک درست بھی ہے کیونکہ آج کی دنیا میں انسانی حقوق کا عالمی علمبردار اقوام متحدہ کو ہی خیال کیا جاتا ہے۔ہمارے اکثر دوست یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی اصطلاح بھی شاید اقوام متحدہ نے ہی تیار کی ہے مگر یہ خیال درست نہیں ہے۔ انسانی تہذیب نے صدیوں کے ارتقاء کے بعد دوسری بیشمار مثبت سماجی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے بنیادی تصورات کو بھی جنم اور پروان چڑھا کر آفاقی بنیادوں پرتحریک کو ترتیب دیا ہے۔
تاریخی طور پر حقوق کا تصور معاشرتی ذمہ داریوں اور کاموں یا اعمال سے جڑا ہوا ہے یعنی حقوق کے بدلے میں کچھ کام اور ذمہ داریاں۔قدیم مخطوطات میں حمورابی (1750-1792قبل مسیح) کا ضابطہ بابل جسے دنیا کا قدیم ترین تحریری ضابطہ مانا جاتا ہے۔ اس میں ریاست ،عدالت، کھیتی باڑی، تجارت، جہاز رانی، آبپاشی، غلاموں کی خریدوفروخت کے معاملات، آقاء اور غلام کے فرائض، شادی بیاہ، وراثت ، ڈاکا چوری کے معاملات وغیرہ پر تفصیل سے قوانین اور فریقین کے حقوق و فرائض کا ذکر ملتا ہے۔پتھر کی قدیم تختیوں پر کنندہ حمورابی کے قوانین معہ راہنما اصولو ں کے کچھ اس طرح سے درج ہیں۔راہنما اصولوں میں انصاف، برابری اور تحفظ شامل ہیں جبکہ قوانین میں بذریعہ قانون عوام کا تحفظ، حکمران کے لیے قانون کی پابندی لازم اور روز مرہ امور سلطنت چلانے میں غفلت اور کوتاہی نہ برتنے کا عہد،خواتین، بچوں، مسافروں اور دوسرے اقلیتی گروپس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تحفظ، غلاموں سے اچھا برتائو، عدالتوں سے بدعنوانی اور لاپرواہی کا خاتمہ شامل ہیں۔
اسی طرح منو سمرتی یا قوانین بھگوان منو جو کہ ہندومت کی مقدس کتاب ہے اور اس کو پہلی سے تیسری صدی عیسوی کے درمیان لکھا گیااس میں بھی بڑی تفصیل سے انسانی فرائض، حقوق، قوانین، طرزعمل اور فضائل درج ہیں۔منو سمرتی میں درج تمام حقوق صرف اورصرف ہندو چار جاتی(براہمن، کھشتری،ویش اور شودر) کے لیے ہی تقویض ہیں اور بیان کردہ چار جاتی کے علاوہ دوسری ذاتوں اور اقلیتوں،مفتوحین وغیرہ کے حقوق کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
ایران کے بادشاہ سائرس اعظم نے 539 قبل مسیح میں بابل (عراق) کو فتح کیا اور فوری طور پر غلاموں کی رہائی، کسی بھی انسان کو اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کا حق اور نسلی امتیازات کے خاتمے کا حکم نامہ جاری کیا۔
چینی کے روحانی و علمی راہنماء کنفیوشش جن کا انتقال 479 قبل مسیح میں ہواکے کچھ فرمودات اقتباسات کنفیوشش کی شکل میں ملتے ہیں جن میں جا بجا انسانی حقوق کے متعلق ذکر اقوال کی شکل میں ملتا ہے۔مثال کے طور پر احترام آدمیت کے جذبات کے بغیر انسانوں اور درندوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اعلیٰ انسان وہ ہے جو حق سچ کی بات کرے اور وہ ادنیٰ انسان جو محض یہی سوچے کہ وہ کیا چیز بیچ سکتا ہے۔زخموں کو بھول جائو اور محبت کو یاد رکھو۔
بائبل مقدس جو کہ قدیم عہد نامہ ، زبور،اناجیل مقدس اور حضرت عیسیٰ کے خطوط کا مجموعہ ہے نے جان کے بدلے جان، مال کے بدلے مال اور آنکھ کے بدلے آنکھ کے بنیادی ضابطہ اخلاق کو متعارف کروا کے انسانوں کے معاشی اورسماجی انصاف اورحقوق کو یقینی بنانے کے لیے اساس فراہم کر دی۔آج دنیا کے تمام آئین اور قوانین اسی ضابطہ اخلاق کے گرد ہی بنائے جاتے ہیں۔اسلام نے بھی اس روایت کو جاری رکھا۔
اسلام میں حقوق اللہ سے بھی زیادہ زور حقوق العباد پر دیا گیا ہے۔اس ضمن میں قران کریم کے حوالہ جات پرکئی کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں۔ ہم اس مختصر کالم میں چند حوالہ جات کو ہی نمونہ کے طور پر رقم کر سکیں گے۔قصاص یعنی برابری میں تمہارے لیے زندگی ہے، ناجائز طور پر ایک دوسرے کا مال نہ کھائو، بنی نوع انسان ایک ہی برادری ہے، دین میں کوئی جبر نہیں(سورۃ البقرہ)۔خواتین کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئو اور انکے ساتھ عزت سے پیش آئو، اے ایمان والو انصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہو جائو اور خدا کو گواہ بنا لو اگرچہ یہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو (سورۃ النسا)۔جو کوئی بھی کسی انسان کو قتل کرتا ہے گویا اس نے تمام انسانیت کا قتل کیا(سورۃ المائدہ)۔اپنے والدین سے حسن سلوک کرو(سورۃ انعام)
انسانی حقوق کی تحریک کا پہلا سفر مختلف ادورار سے ہوتا ہوا پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے زمانہ پر آکر منتج ہوا۔ خطبہ حجتہ الوداع کو انسانی حقوق کا عالمی چارٹر سمجھا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی تحریک کا اگلا دور معاہدہ میگنا کارٹا (1215ء) ء سے جنگ عظیم دوئم 1945ء تک کا ہے۔جس کا مختصر جائزہ اور تعارف اگلے کالم میں کروایا جائے گا۔