پارٹی صدارت کے لیئے نواز شریف  کا دوبارہ انتخاب اور درپیش چیلنجز 

میاں محمد نواز شریف کو 6 سال بعد دوبارہ مسلم لیگ (ن) کا بلامقابلہ صدر منتخب کر لیا گیا۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں چیف الیکشن کمشنر رانا ثناء اللہ نے ان کے بلامقابلہ منتخب ہونے کا اعلان کیا۔
 پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا  کہ بدقسمتی سے 1947ء سے ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ جاری ہے، ہمیں مان لینا چاہئے کہ ہم نے خود اپنے پائوں پرکلہاڑیاں ماری ہیں۔ خلل نہ  آتا تو پاکستان براعظم میں منفرد مقام رکھتا، خطے کی بڑی طاقت ہوتا۔کوئی بتائے ہم پر جھوٹے کیس کیوں بنائے گئے۔ عمران خان کا امپائر کون تھا؟ عمران خان جنرل ظہیرالاسلام کی تیسری طاقت تھے۔ آج عوام نے جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔
میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر برقرار نہ رہ سکے۔ان کی ایم این اے کی سیٹ  خالی قرار دے دی گئی اور انہیں مسلم لیگ نون کے صدر کے عہدے سے بھی نااہل قرار دیا گیا۔میاں نواز شریف کے علاوہ آج کی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو بھی احتساب عدالت کی طرف سے قید اور جرمانے کی سزائیں  سنائی گئی تھیں۔قید کے دوران ہی میاں نواز شریف کی صحت متاثر ہوئی تو علاج کے لیے وہ لندن چلے گئے۔کئی سال کے بعد واپس آئے تو اپیلوں میں میاں نواز شریف کی نا اہلیت ختم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو سنائی جانے والی سزائیں بھی کالعدم قرار دے دی گئیں۔
گزشتہ روز مسلم لیگ نون کی جنرل کونسل نے میاں نواز شریف کو مسلم لیگ نون کا ایک بار پھر صدر منتخب کر لیا۔کل تک مسلم لیگ نون کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف کے پاس تھی۔میاں نواز شریف طویل عرصہ مسلم لیگ نون کے صدر رہے۔پاکستان میں پارٹی سربراہ کو حکومت میں آنے کی صورت میں پارٹی وزیراعظم نامزد کر دیتی ہے۔میاں نواز شریف تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے اور اس دورانیہ میں مسلم لیگ نون کی صدارت بھی ان کے پاس رہی۔ مسلم لیگ نون کا یہ اصولی موقف ہے کہ حکومتی اور پارٹی  عہدے الگ الگ ہونے چاہئیں۔اب اس اصول کے تحت ہی وزیراعظم شہباز شریف کی جگہ میاں نواز شریف کو مسلم لیگ نون کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔پارٹی وہی مضبوط ہو سکتی ہے جس پر اس کی قیادت کی پوری توجہ مرکوز ہو۔ آپ کے پاس  حکومتی عہدہ  ہے اور ساتھ ساتھ پارٹی کی ذمہ داریاں بھی ہیں تو دونوں سے انصاف کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔مسلم لیگ نون کی طرح دیگر پارٹیاں بھی حکومتی اور پارٹی عہدے الگ الگ کر دیں  تو اس سے پارٹی کے اندر سے زیادہ لوگوں کی  صلاحیتوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔مسلم لیگ نون اس کو مستقل اصول بنا لے تو پارٹی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے جس کی آج پارٹی کو اشد ضرورت بھی ہے۔فروری کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ نون کی  انتخابات میں بھاری اکثریت کی پیش گوئیاں کی جا رہی تھیں مگر انتخابی نتائج میں مسلم لیگ نون دوسری بڑی پارٹی ثابت ہوئی۔1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نون کی طرف سے دو تہائی اکثریت حاصل کی گئی تھی۔
میاں نواز شریف کو گلہ یہ بھی ہے کہ 1990ء کی دہائی میں انہیں ان کا مینڈیٹ پورا کرنے دیا جاتا اور اس میں خلل نہ ڈالا جاتا تو پاکستان دنیا میں منفرد مقام کا حامل ہوتا۔یہ حقیقت ہے کہ 90ء کی دہائی میں میاں نواز شریف دو مرتبہ اقتدار میں آئے اور دونوں مرتبہ ان کو آئینی مدت پوری نہ کرنے دی گئی اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اسی دوران بے نظیر بھٹو بھی دو مرتبہ وزیراعظم بنیں اور ان کو بھی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی تھی۔ دو مرتبہ 90ء کی دہائی میں مسلم لیگ نون کی حکومت آئینی مدت کی تکمیل سے قبل توڑ دی گئی اور دو مرتبہ ہی پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو ایک دوسرے کے بالمقابل ہوا کرتے تھے اور انہی کا ایک دوسرے کی حکومت کے خاتمے میں کردار بھی ہوا کرتا تھا۔مشرف دور میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مابین ذاتیات، دشمنی اور نفرت کی دیوار چارٹر آف ڈیموکریسی کے ذریعے گرا دی گئی۔
میاں نواز شریف کے پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد شرکا سے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ججوں کی اکثریت ملک کی ترقی پر متفق ہے جبکہ چند  کالی بھیڑیں  ہیں۔2018ء میں نواز شریف جیتے ہوئے تھے ان کی پارٹی کو ہرا کر پی ٹی آئی کو جتوایا گیا۔190 ملین پاؤنڈ نواز شریف نے نہیں بانی پی ٹی آئی نے چرائے تھے۔ آج نواز شریف سرخرو اور مخالفین کے منہ کالے ہو گئے۔شہباز شریف نے مزید کہا کہ مجھے جو امانت دی گئی تھی آج پارٹی کے حوالے کر دی۔
شہباز شریف بھی پارٹی کو بڑے اچھے طریقے سے چلا رہے تھے اب جب کہ پارٹی کی طرف سے حکومتی اور پارٹی عہدوں کو الگ الگ کرنا طے پایا تو شہباز شریف نے مسلم لیگ نون کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔اب پارٹی کے معاملات میاں نواز شریف دیکھیں گے۔ چونکہ ان کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں ہے ان کی پوری توجہ پار ٹی کی مضبوطی مربوطی اور استحکام کی طرف ہوگی تو پارٹی 1997ء کی طرح ایک بار پھر دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔مسلم لیگ نون کے انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد شرکاء کی طرف سے اظہار خیال کرتے ہوئے سخت الفاظ کا بھی استعمال کیا گیا۔کچھ الزامات کے جواب دیئے گئے اور کچھ الزامات عائد بھی کیے گئے۔
نواز شریف کا دوبارہ پارٹی صدر منتخب ہونا مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو تقویت پہنچائے گا۔ حکومتی اور پارٹی عہدے الگ الگ رکھنے کی روایت مستحکم ہونی چاہیئے اس سے حکومتی معاملات میں پارٹی کی مداخلت کم ہو گی اور جمہوریت کی بنیاد مستحکم ہوگی۔ ماضی میں عدلیہ کے ذریعے نواز شریف کی حکومت اور پارٹی سے فراغت ہوئی تو اب عدالتی فیصلہ کے تحت ہی پارٹی اور سیاست میں ان کی واپسی ہوئی ہے۔ اب ماضی کے کرداروں کو کوسنے کی بجائے ملکی اور قومی مفادات کو ساتھ لے آگے بڑھنا چاہیئے۔ اداروں کے ساتھ ٹکراؤ اور بلیم گیم کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیئے۔ ملک کی معیشت کو سدھارنے کے لیئے قومی افہام و تفہیم کا جذبہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس کی بڑی ذمہ داری حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادتوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن