ہمیں گھر بھیجنے کے دعویدار آج ہماری دوستی پر مجبور ہوگئے:صدر زرداری
قاتل لیگ کے نعرے لگا کر پھر انہیں گلے لگانا،ایک طرف چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کو بھول جانا اور دوسری طرف بھٹو کی پھانسی والے قلم کو بھول کرسیاسی دستر خوان پر بندربانٹ کرنا یہ تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ایک نے اپنے ”چھوکرے“ اور دوسرے نے ” کرسی“ بچانے کیلئے ” جھپیاں“ ڈالیں لیکن صدر محترم کا جن کی طرف اشارہ ہے انہوں نے تو آمر سے کرسی خالی کروانے کیلئے جناب کو سپورٹ کیا‘ کیا آپ کے اس طعنے کو فرینڈلی اپوزیشن والوں کی تجدید دوستی کا شکریہ سمجھا جائے؟ جناب کی دوستی اور دشمنی سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔دوستی میں بدنامی ہوگی جبکہ دشمنی میں اپنے ہدف میں ناکامی، اسی لئے آپکی دوستی کے جلے ہوئے اب پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں کیونکہ آپکے نزدیک تو وعدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے لیکن عوام بیچارے اس دفعہ بھی وعدوں میں رہیں گے۔گیلانی نہ جانے آپکی باتوں کے جال میںکیسے پھنس گئے ورنہ جس طرح آپ نے انہیں یوسف بے کارواں کیا وہ عزت دار آدمی کیلئے کسی سانحے سے کم تو نہیں ہے۔پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ اقتدار میں جس طرح کی بندر بانٹ جاری ہے شاعر نے اسی پر کہا تھا....
بندروں کی بندر بانٹ دنیا میں مشہور ہے
سیاست پاکستان کی اسی سے معمور ہے
دیکھا خواب بڑوں نے جو آج وہ چکنا چور ہے
٭....٭....٭....٭
کراچی:بلڈنگ میں آگ لگنے سے آٹھویں منزل سے چھلانگ لگانے والا نوجوان جاں بحق۔
بے روزگار نوجوان اویس کو نوکری نہ ملی موت مل گئی، تقدیر انسان کو کہاں کہاں کھینچ لاتی ہے۔ وزیراعلیٰ اور گورنر کا افسوس تو صرف رسمی ہے کیونکہ جہاں بے گناہ درجن بھر افراد بلاناغہ قتل کردئیے جائیں وہاں ایک اویس بے چارے کے ماں باپ کے آنسو کون پونچھے گا ،شنید ہے کہ اگر بروقت ریسکیو ٹیمیں پہنچ جاتیں تو اویس کو بچایا جاسکتا تھا لیکن ہماری بات کون سنے،ہم تو کہتے ہیں کہ کراچی میں فوجی آپریشن کیاجائے اب تو چیف نے بھی کہہ دیا ہے کہ خون کی بہتی نہروں کے سامنے بند باندھا جائے لیکن اتحادی کہتے ہیں۔”بس بھائی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب آج کے بعد ملاقات نہیں چیف صاحب“ کیونکہ یار لوگوں کا ایک اپنا ایجنڈا ہے جس پر وہ گامزن ہیں،کراچی کا اویس نہ جانے کیسے سہانے خواب لیکر انٹرویو دینے گیا ہوگا اسکے مستقبل کے کیا کیا منصوبے تھے لیکن تقدیر نے اسے مہلت نہ دی اور وہ ساری حسرتیں دل ہی دل میں سجائے وہاں پہنچ گیا جہاں کوئی گیا ہوا واپس نہیں آتا۔ سٹیٹ لائف اگر اسکے لواحقین کےساتھ کچھ ہمدردی کردے تو شاید اسکے ماں باپ کے آنسو کچھ کم ہوجائیں۔
٭....٭....٭....٭
قبائلی علاقے کشوبہ میں 8سالہ بچی کا 5برس کے لڑکے سے نکاح۔ اس سے بڑھ کر ظلم عظیم کیا ہوگا،5سالہ بچے کو تو اپنا ناک صاف کرنا نہیں آتا بعض علاقوں میں اس عمر کے بچے فیڈر پیتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست کی بیٹی آٹھ سال تک فیڈر پیتی رہی، وہ خود ہی فیڈر بناتی اور پی لیتی، یہ کشوبہ کی 8سالہ بچی بھی کتنی بڑی ہوگی، قبائلی لوگ ویسے تو بڑے سخت ہوتے ہیں لیکن زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج انکے ہاں ابھی تک جاری ہیں، یہ دونوں معصوم بچے جو یقینی طورپر لفظ شادی سے بھی پوری طرح واقف نہیں ہونگے یہ انکے مستقبل کیساتھ زیادتی ہے وہاں کے قاضی اور انتظامیہ پتہ نہیں خواب غفلت سے کب بیدار ہونگے 5سالہ بچے کو کم از کم ایک مہینے پہلے تو ماں باپ نے قبول ہے،قبول ہے کا سبق پڑھانا شروع کردیا ہوگا لیکن اس معصوم کو کیا پتہ کہ اسکے والدین اسے کن جکڑ بندیوں میں جکڑنے کا کام کر رہے ہیں۔علامہ اقبال نے کہا تھا....
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پر آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
٭....٭....٭....٭
پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکی خصوصی نمائندے مارک گراسمین مستعفی۔
دہشت گردی کی جنگ چھیڑنے والے اس ”مُدے“ کو ہمارے پاس چھوڑ کر آہستہ آہستہ ” کھسک“ رہے ہیں،ایسے ہی تاجروں کے ساتھ نشیﺅں نے کیا تھا،واقعہ مشہور ہے کہ 5 نشئی ویرانی میں ڈیرہ لگائے بیٹھے تھے زیادہ نشے کے باعث ایک نشئی مر گیا باقی چاروں نے مشورے سے اس کو کفن دیکر چارپائی پر لٹایا اور بازار کے اندر سے جنازہ لیکر گزرنے لگے،تاجروں نے دیکھا کہ کیسا غریب آدمی ہے جس کے جنازے کے ساتھ پانچواں آدمی کوئی نہیں چنانچہ ایک تاجر نے کلمہ شہادت پڑھا اور جنازے کو کندھا دیا تو ایک نشئی پیچھے ہوگیا ،دوسرا تاجر آیا اس نے بھی کلمہ شہادت پڑھا اور جنازے کو کندھا دیا دوسرانشئی بھی کھسک گیا ،باقی تاجروں نے بھی دیکھا دیکھی کہ کوئی بڑا تاجر فوت ہوا اپنی دکانیں بند کیں اور جنازے کےساتھ ہولیے تو باقی دو نشئی بھی پیچھے ہٹ گئے ،دیکھتے ہی دیکھتے سارا بازار بند ہوگیا ایک سوگ طاری ہے کلمہ شہادت کہتے تاجر جنازے کو لیکر شہر سے باہر قبرستان چلے گئے۔قبرستان شروع ہوا وہ بھی ختم ہوگیا آخر تنگ ہوکر تاجروں نے میت نیچے رکھی اور آواز لگائی یار اس کے لواحقین کون ہیں اسے کہاں دفن کرنا ہے۔یہی حال اس وقت فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کا ہے۔دہشت گردی کا ” مُردہ“ اسکے کندھوں پر ہے لیکن نشیﺅں کی طرح سارے اتحادی ایک ایک کرکے بھاگ رہے ہیں۔پوری پاکستانی قوم نے اس مردے کو کندھے کے طورپر فوج پیش کی،سویلین نے کندھا دیا لیکن اب پاکستانی تذبذب کا شکار ہیں کہ اس جنگ کے لواحقین کون ہیں؟ اسکو ختم کیسے کرنا ہے؟ لیکن کوئی بھی نیٹو اتحادی اسکی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ فرانس چلا گیا‘امریکہ بھی 2014 میں جانے کی تیاریاں کر رہا ہے جبکہ پاکستان ”دہشت گردی کے مردے“ کو اٹھا کر صدا لگا رہا ہے کہ اس کا وارث کون ہے؟امریکہ کی طرف سے مقرر آخری وارث مارک گراسمین بھی خالی ہاتھ لوٹ گئے ہیںلیکن ”مردہ“ وہیں کا وہیں ہے۔
جمعة المبارک‘ 14 محرم الحرام ‘ 1434ھ 30 نومبر2012 ئ
Nov 30, 2012