گورنر خیبر پی کے بیرسٹر مسعودکوثرنے کہا ہے کہ نظریہ پاکستان سے زیادہ ریاست کی اہمیت ہونی چاہئے۔ نظریہ وقت کےساتھ ساتھ بدلتا ہے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سنٹر میں خیبر پی کے تاریخ وثقافت کے موضوع پرمنعقدہ تین روزہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن کے دوران میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا وہ آج ہمیںکمزورکر رہا ہے۔
پاکستان ہندو مسلم دو قوموں کی بنیاد پر معرض ِ وجود میں آیا۔ اسی کو نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ کہاجاتا ہے اور یہی پاکستان کی اساس ہے ۔پاکستان مدینہ کے بعد دوسری ریاست ہے جو ایک نظریے کی بنا پر قائم ہوئی۔نظریہ پاکستان سے ہٹ کر آ پ اپنی بنیاد کھوکھلی کر دیں گے۔بیرسٹر مسعود کوثر نے حوالہ دیا ہے کہ روس، چین اور یورپ نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کو بدلا ہے۔ روس میںکمیونزم تھا لیکن وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی لائی گئی۔ پالیسی اور نظام حکومت میں تبدیلی کو نظریہ بدلنے سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ سسٹم تو آپ کے ہاں بھی بدلے ، مزید بھی بدل سکتے ہیں۔مسعود کوثر دو قومی نظریہ کی جگہ کونسا نظریہ لانا چاہتے ہیں ،وہ نظریہ پاکستان میں کیسی تبدیلی کے خواستگار ہیں؟ یک قومی نظریہ تو پون صدی قبل پٹ چکا ہے جس کے دل وجان سے حامی وہ لوگ تھے جوآج کے پی پی پی کے اتحادی ہیں۔مسعود کوثر پی پی پی کے دیرینہ کارکن اور رہنما ہیں ‘ اسی بنا پر ان کو خیبر پی کے کا گورنر تعینات کیا گیا۔اتفاق سے اس صوبے میں سرحدی گاندھی کے خانوادے کی حکومت ہے ۔کہیں ان پر بھی اے این پی کا رنگ تو نہیں چڑھ گیا جس نے کبھی پاکستان کی مخالفت پر اپنے بزرگوں کے موقف سے لاتعلقی کا اظہار نہیں کیا۔نظریہ پاکستان اور ریاست کو الگ الگ کرنے سے پاکستان اپنے قیام کا جواز کھو دے گا۔ یہی” اکھنڈ بھارت ایجنڈہ“ ہے جس کی مسعود کوثر نے دانستہ یا نادانستہ بالواسطہ حمایت کی ہے، جسے کوئی بھی محب وطن پاکستانی برداشت نہیں کرسکتا۔اکھنڈ بھارت کے حامیوں پر بھارت نے کبھی اپنے دروازے بند نہیں کئے ۔یہ لوگ حد بندی کی لکیرمٹانے کی کوشش کرنے کے بجائے وہیں جا بسیںتاکہ ان کو ہندو کی مسلمانوں سے محبت کا اندازہ اور اس کی اصلیت سمجھنے میں آسانی ہو سکے ۔