لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کے قیام کو 45 سال مکمل ہو گئے مگر روٹی کپڑے، مکان کی فراہمی اور مساوات محمدی کے نعرے پر قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی قیادت 45 برس کے دوران چار مرتبہ برسراقتدار آنے کے باوجود ایک بھی نعرہ اور وعدہ پورا نہیں کر سکی۔ ذوالفقار بھٹو نے 1967ءمیں ایوب خان کے خلاف عوام کی نفرت کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور پاکستان کے غریب اور مجبور عوام کو ان کی تقدیر بدلنے کا خواب دکھایا۔ اس خواب سے متاثر ہو کر عوام نے 1970ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو مغربی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بنا دیا۔ ذوالفقار بھٹو 5 سال برسراقتدار رہے مگر 1977ءکے عام انتخابات کے بعد چلنے والی تحریک نظام مصطفی کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہوئے تو ”روٹی پلانٹ“ کے سوا کوئی دوسرا وعدہ ”پورا“ نہیں کر سکے تھے۔ سوشلزم ہماری معیشت کے نعرے پر عمل نہ ہو سکا۔ سوشلرم ہماری معیشت کے نعرے پر بننے والی جماعت میں ملک کے سب سے بڑے جاگیردار اہم عہدوں پر فائز رہے۔ زمینی اصلاحات کا فائدہ غریب عوام کو نہ ہوا اور وڈیرے زمینوں پر قابض رہے۔ صنعتیں قومیانے کی پالیسی نے ملکی صنعتوں کا بھٹہ بٹھا دیا۔ بھٹو کے بعد بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں دو مرتبہ اقتدار ملا اور اب آصف زرداری کی قیادت میں پی پی پی حکومت5 سال پورے کر رہی ہے۔ مگر ان تینوں ادوار میں روٹی، کپڑا اور مکان کے عوام کی آنکھوں میں سجے سپنے صرف خواب ہی رہ گئے۔ عوام آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان کے منتظر ہیں۔ اس سب کے باوجود یپلز پارٹی کو انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی پارٹی کا اعزاز حاصل ہے اور 45 برس گزرنے کے بعد بھی جیالوں کی ”بھٹو“ سے محبت کم نہیں کی جا سکی ہے۔ اپنے قیام کے دن سے پیپلز پارٹی کا اسٹیبلشمنٹ سے اٹ کھڑکا رہا مگر موجودہ دور اقتدار میں یہ اٹ کھڑکا دیکھنے کو نہیں ملا جس کا کریڈٹ پی پی پی کی ”مفاہمتی پالیسی“ اور صدر آصف زرداری کی شخصیت کو دیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنی پیدائش سے بے نظیر بھٹو کی شہادت تک مزاحمتی سیاست پر نہ صرف یقین رکھتی رہی بلکہ عمل پیرا بھی رہی ہے۔ موجودہ پانچ برس کی مفاہمتی سیاسی کے بعد ”اقتدار“ نہ ملنے کی صورت میں مفاہمتی سیاست جاری رہے گی یا مزاحمتی سیاست واپس لوٹ آئے گی یہ عام انتخابات کے نتائج اور نئی حکومتیں بننے کے بعد ہی سامنے آئے گا۔