لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پنجاب حکومت کو ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق معذوروں کو ملازمتوں میں مختص 2 فیصد کوٹہ فراہم کرنا پڑیگا۔ اگر اس سلسلے میں رولز میں کوئی خامیاں ہیں تو وہ درست کی جائیں۔ عدالت صرف قانون کا نفاذ چاہتی ہے۔ عدالت بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے۔ سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس اعجاز چوہدری اور مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل بنچ نے یہ ریمارکس لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے نابینا شہری جابر حسین کو معذوروں کے کوٹہ پر انگلش کا لیکچرار مقرر کرنے کے حکم کے خلاف دائر پنجاب پبلک سروس کمیشن کی اپیل کی سماعت کے دوران دیئے۔ فاضل عدالت نے اپیل مسترد کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور معذوروں کے کوٹہ پر ایم اے انگلش نابینا شہری جابر حسین کی بطور لیکچرار تقرری کا حکم دیا۔ گزشتہ روز اپیل کی سماعت شروع ہوئی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل چوہدری محمد اقبال نے عدالت کو بتایا کہ جابر حسین نے ایم اے انگریزی تھرڈ ڈویژن میں کیا ہے اور TEFL میں ڈپلومہ کیا ہے جبکہ مطلوبہ اہلیت کے مطابق اگر امیدوار ایم اے تھرڈ ڈویژن میں ہے تو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ڈپلومہ ہونا چاہئے۔ مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر اُس نے آکسفورڈ سے پڑھا ہو تو کیا اُس کی اہلیت پر اثر پڑیگا؟ جابر حسین کے وکیل محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت میرٹ کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔ معذور افراد معاشرے کا حسن ہیں۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ یہ لوگ سڑکوں پر بھیک مانگیں۔ مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا ہم پتھر کے دور میں جانا چاہتے ہیں؟ ایک معذور فرد محنت کرکے پڑھ گیا اور میرٹ پر بھی آگیا آپ خود کہہ رہے ہیں انٹرویو پاس کر لیا، 2 فیصد کوٹہ بھی مانتے ہیں تو اُسے نوکری کیوں نہیں دیتے؟ فوری طور پر اُسے نوکری دی جائے۔