نئے آرمی چیف کی تقرری سے چند گھنٹے پہلے بڑی عجلت میں خواجہ آصف کو وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔بظاہراس تقرری کی وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے لا پتہ افرادکے سلسلے میں وزیر اعظم کو بطور وزیر دفاع طلب کیا تھا، وزیر اعظم یا تو عدیم الفرصت ہیں یا وہ عدلیہ کے سامنے پیشی کو اپنے وقارکے منافی سمجھتے ہیں، اس لئے انہوںنے پیشی بھگتنے کے لئے وزارت دفاع کا چارج خواجہ آصف کو دے دیا۔مگر خواجہ آصف کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی جو زبان فوج کے ادارے کے لئے استعمال کرتے ہیں، اس سے ہر کوئی اچھی طرح آگاہ ہے تو کیا یہ سمجھا جائے کہ انہیں یہ منصب بطور خاص کسی کو چڑانے کے لئے عطا کیا گیا ہے۔
جنرل راحیل نے وزیر دفاع کو کیا سیلوٹ کر دیا کہ اب ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اس سیلوٹ کو عملی طور پر بھی ثابت کریں کہ وہ اپنے وزیر کا دل سے احترام کرتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی خواہش ہے کہ اول تو فوج کا ادارہ ہونا ہی نہیں چاہئے اور اگر ہو بھی تو صرف سلامیوں کے لئے، بینڈ باجے کے لئے، بھل صفائی کے لئے، میٹر ریڈنگ کے لئے اور گھوسٹ اسکولوں کا سراغ لگانے کے لئے۔
صدرزرداری کے دور میں بھارت نے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا کو نئی دہلی کے کٹہرے میں طلب کیا، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جھٹ آرڈر دیا کہ جنرل پاشا وقت ضائع کئے بغیر دلی کا جہاز پکڑیں ، مگر وہ نہیں گئے تو اسے حکم عدولی قرار دیا گیا۔ یہی وہ دور ہے جس میں آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت لانے کی تجویز سامنے ا ٓئی مگر یہ کہیں فائلوںمیں اپنی موت آپ مر گئی۔
جنرل کیانی نے چلے جاناتھا، اسکا اعلان انہوںنے خود کیا، مگر آخر وقت تک یہی پراپیگنڈہ جاری رکھا گیا کہ جنرل کیانی کی بدن بولی سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ جی ایچ کیو سے رخصت ہو رہے ہیں، اس پراپیگنڈے کا ایک ہی مقصدتھا اور وہ یہ کہ جنرل کیانی کو عہدے کا حریص ثابت کیا جائے۔پراپیگنڈے کی اس جنگ میں وال ا سٹریٹ جرنل کو بھی جھونک دیا گیا ، ہر ٹی وی چینل پر منہ کھولنے والا اینکر، جنرل کیانی کے لئے مزید توسیع یافیلڈ مارشلی یا جائنٹ چیفس کی چیئر مینی کے آرڈر جاری کررہا تھا، اس پراپیگنڈے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ جنرل کیانی آسانی سے جانے والے نہیں اور وہ عہدے سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔
نئے آرمی چیف کا تقرر ہو گیا، اب کسی کو تو چیف بننا تھا، لیکن جن لوگوں کو کیڑے تلاش کرنے کا شوق ہے وہ بہر صورت اس فیصلے پر تنقید کرتے، اگر جنرل ہارون کو یہ منصب مل جاتا تو کہا جاتا کہ وزیر اعظم پر ایک ایسا شخص تھوپ دیا گیاہے جس نے ٹرپل ون بریگیڈ کے سربراہ کے طور پر ان کے خلاف بارہ اکتوبر نناوے کو کاروائی کی تھی، اب اگر انہیں آرمی چیف نہیں بنایا گیا تو کسی نے نہیں کہاکہ وزیر اعظم ذاتی رنجش اور پسندو نا پسند کے تحت چنائو کیوں کرتے ہیں۔جنرل ہارون میں ایک نہیں لاتعداد کیڑے نکال لئے گئے ہیں ، یہ کہ انہوں نے کوئٹہ کے کمانڈر کی حیثیت سے بگٹی کے خلاف آپریشن کیا، یہ بھی کہ انہوںنے سوات آپریشن کی قیادت کی۔ کوئی یاد کرا رہا ہے کہ شہباز شریف نے جلاوطنی ختم کرکے لاہور اترنے کی کوشش کی تو فلاں فوجی افسر نے انہیں دھکا دیا، فلاں فوجی افسر نے انہیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر دوسرے جہاز میں سوارکر اکے جدہ چلتا کیا۔
وزیر اعظم آج کلی اختیارات کے مالک ہیں جس کے ساتھ جو چاہے سلوک کر گزریں مگر وزیر اعظم سمیت ہر کوئی جانتا ہے کہ فوج میں حکم عدولی کا مطلب کیا ہوتا ہے، سیدھا کورٹ مارشل، اگر حکم عدولی جائز اور قابل معافی ہوتی تو وزیر اعظم، سب سے پہلے جنرل ضیاالدین بٹ کی بحالی کا حکم جاری کرتے اورساتھ ہی اپنے ملٹری سکرٹری بریگیڈیئر جاوید اقبال کو تمام اعزازات کے ساتھ بحال فرماتے۔ا ن دو افسروںنے اس وقت کے جی ایچ کیو کے احکامات کو نہیں مانا۔
فوج کو مارشل لا کے نفاذ سے باز رکھنا اور بات ہے اور اس کو تھلے لگاناا ور بات ہے۔مارشل لا کا نفاذآئین کی خلاف ورزی ہے لیکن فوج کو ذاتی جاگیر سمجھنا بھی آئین کے منافی ہے۔ حکومت انہیں اپنادم چھلہ نہیں بنا سکتی۔حکومت تو ینگ ڈاکٹرز کو قابو کرنے میںناکام رہی ہے۔
بھٹو دور میںجنرل گل حسن کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، مصطفی کھرنے انہیں اغوا کیا اور قیدی بنا لیا اور ان کی جگہ جنرل ٹکاخان کو آرمی چیف بنا دیا گیا۔یہی گل حسن تھے جنہوںنے خصوصی طیارہ بھیج کر بھٹو کو یو این او سے بلوا کر سول چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے منصب پر فائز کیا تھا۔ نواز شریف نے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی طرف سے پیش کردہ ایک تجویز پر ناراضی کا اظہار کیا ور ان سے استعفی مانگ لیا۔
کون جانتا ہے کہ ان دنوں سعید مہدی کہا ںہیں اور انہوںنے کن تمنائوں سے سرشار ہو کر نواز شریف کی خدمت کی مگراب وہ اقتدار کی راہداریوں کے آس پاس بھی نظر نہیں آتے۔ طارق عظیم اور ان کے بھائی شجاعت عظیم ان دنوں کہاں ہیں۔ن لیگ کی انتخابی مہم ذاتی جیب سے چلانے والے ان لوگوں کو کیا صلہ ملا۔فوج تو پھر بھی مغضوب ہے، اس کے ساتھ حکومت جو کرے گی ،وہ سب کو نظر آئے گا۔جنرل کیانی کو کھانے کھلا کررخصت کیا گیا مگر نومبر کی ایمر جنسی پر بغاوت کیس کو بھی آگے بڑھایاجا رہا ہے، ان دنوں کیانی صاحب نائب آرمی چیف تھے اور ایمر جنسی کا فیصلہ تنہا مشرف کا نہیں ، ان کے بقول تمام کور کمانڈرز سے صلاح مشورے کے بعد یہ فیصلہ ہوا۔کیا ان سب کو غداری کے مقدمے کی لپیٹ میں لیا جائے گا، کیا موجودہ حکمران بھاگ بھاگ کر ترکی جاتے ہیں تو وہاں یہ سبق سیکھنے جاتے ہیں کہ فوجی جرنیلوں کو سزائیں دینے کا آسان اور تیر بہدف نسخہ کیا ہے۔
پیپلز پارٹی الگ فوج سے اپنا ادھار چکانے کی فکر میں ہے، انکے لیڈر کی حکومت کا تختہ الٹا گیا ور پھرتختے پر چڑھا دیا گیا، دو مرتبہ محترمہ کی حکومت بھی پس پردہ رہ کر فوج نے ختم کی، محترمہ کو ایک فوجی حکمران کے دور میں شہید کیا گیا۔ اتنے ہی دکھ نون لیگ کی قیادت کو لاحق ہیں۔ جماعت اسلامی کے بھی تیور بگڑے ہوئے ہیں، وہ امریکی جنگ کا ساتھ دینے والی پاک فوج کو نہ غازی مانتی ہے نہ شہید، فضل الر حمن تو دو قدم آگے ہیں، ، وہ امریکی میزائل سے مرنے والے کتے کو بھی شہید کہتے ہیں۔ملک میں ایک لبرل اور مادر پدر آزاد طبقہ ہے جو امریکہ ا ور بھارت سے ما ل بٹور کر پاک فوج کی جان کے در پے ہے۔
نئے آرمی چیف کو پہاڑ جیسا چیلنج درپیش ہے۔ وہ عمران خان کی شہہ پرامریکہ سے لڑیں بھڑیں،حکومت وقت کی اطاعت گزاری میں تین سال بسر کریں، بھارتی ریشہ دوانیوںکے سامنے خم ٹھونک کر کھڑے ہوں یا آستین کے سانپوں کوکچلنے کی کوشش کریں،پاک فوج سخت نرغے میں ہے ۔