٭عاجز ترین وہ شخص ہے جس کا کوئی دوست نہ ہو اوراگر بہم پہنچے تو معمولی ملال سے اس کو چھوڑدے۔
٭ماں پاب کی خوشنودی دنیا میں موجب دولت اورعاقبت میںباعث نجات ہے۔
٭گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے مگر گناہ سے بچنا واجب تر ہے۔
٭جو امر پیش آتاہے وہ نزدیک ہے لیکن موت اس سے بھی نزدیک تر ہے۔
٭شرم مردوں سے خوب ہے مگر عورتوں سے خوب تر ہے۔
٭پاک نفس آدمی شہر ت میں عورتوں سے زیادہ شرماتا ہے۔
٭دنیا کے ساتھ مشغول ہونا جاہل کا بد ہے لیکن عالم کا بدترہے۔
٭گناہ، جو ان کا ابھی اگر چہ بد ہے لیکن بوڑھے کا بدتر ہے۔
٭بخشش کرنا امیر سے خوب ہے لیکن محتاج سے خوب ترہے۔
٭علم پیغمبروں کی میراث ہے اورفرعون وقارون کی میراث مال ہے۔
٭موت سے محبت کروتو زندگی عطا کی جائےگی۔
٭میری نصیحت قبول کرنے والا دل‘موت سے زیادہ کسی کو محبو ب نہ رکھے ۔
٭دل مردہ ہے اوراس کی زندگی علم ہے۔ علم بھی مردہ ہے اوراسکی زندگی طلب کرنے سے ہے۔
٭جو اللہ کے کاموں میں لگ جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔
٭دنیا اوردنیا کی چیزیں اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے اس لئے کہ جو مشغول بہ فانی ہوگیا وہ باقی کے ساتھ محجوب ہوجائے گا۔
٭بدبخت ہے وہ شخص جو خود تو مرجائے لیکن اس کا نہ گناہ نہ مرے۔
٭مصیبت کی جڑ اور بنیاد انسان کی گفتگو ہے۔
٭خبردار! کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو حقیر نہ سمجھے کیونکہ کم درجے کا مسلمان بھی خد ا کے یہاں بسااوقات بلند مرتبہ رکھتا ہے۔
٭وہ علماءحق تعالیٰ کے دشمن ہیں جو امراءکے پاس جاتے ہیں اوروہ امرا‘حق تعالیٰ کے دوست ہیں جو علماءکے پاس آتے ہیں۔
٭بری صحبت سے تنہائی اورتنہائی سے علماءکی صحبت بدر جہا اکبر ہے۔
٭نماز کو سجد ہ سہو پورا کرتا ہے ۔ روزوں کو صدقہ پورا کرتا ہے۔حج کو فدیہ قربانی پورا کرتا ہے اورایمان کو جہاد پورا کرتا ہے۔
٭اللہ تعالیٰ کا خوف بقدر علم ہوتا ہے اوراس سے بے خوفی بقدر جہالت۔(تاریخ ساز وافکارواقوال)