احیائے دین کیلئے امام ربانیؒ کی تحریک

Nov 30, 2016

جمیل اطہر سرہندی
سرہند کو فقیروں اور درویشوں کی دنیا میں ہمیشہ قدر و منزلت کا مقام حاصل رہا ہے۔ یہ اللہ کے وہ برگزیدہ بندے تھے، جنہوں نے سینکڑوں سال تک اس سرزمین میں نیکی اور پاکیزگی کے بیج بوئے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کا مقدس فرض ادا کیا۔ خاص طور پر ہندوستان میں مغلیہ حکمرانوں کے دور میں سرہند سیاسی اور دینی اعتبار سے قیادت و سیادت کا مرکز رہا۔ سرہند نشیب و فراز کے بے شمار ادوار سے گزرا کئی بار خانہ جنگی ہوئی کئی بار یہ میدان جنگ بنا اور ہر بار پنجاب کی ریاست پٹیالہ کا یہ تاریخی شہر تاریخ کا رخ بدلنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سرہند مسلمانوں کی تگ و تاز کا ہی محور نہیں رہا، بلکہ سکھوں کے کئی اہم معرکے بھی اسی سرزمین پر سر کئے گئے یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ کی ابدی آرام گاہ جسے علاقے کے مسلمان روضہ شریف کے نام سے یاد کرتے ہیں سے، آدھے میل کے فاصلے پر سکھوں کا متبرک مقام گوردوارہ فتح گڑھ صاحب بھی واقع ہے۔ سرہند شریف مسلمانوں کے قلب و نگاہ کو نئی روح عطا کرتا ہے اس لئے کہ اس کے چپے چپے میں مسلمانوں کے ان اسلاف کے مدفن ہیں، جنہوں نے ظلمت و تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اسلام کی نورانی شمع کو فروزاں رکھا اور اس اعلیٰ وارفع نصب العین کی خاطر کسی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ سرہند میں حضرت مجدد الف ثانی ؒ کا مدفن دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے اسی طرح کشش کا باعث ہے۔
ہندستان میں اسلام کے افق پر رنج و غم، مایوسی اور افسردگی کے جو بادل منڈلانے لگے تھے، حضرت مجدد الف ثانی ؒکی شب و روز کاوشوں سے چھٹ گئے۔ شیخ احمد فاروقی سرہندی ؒ کا یہ کارنامہ تھا کہ انہوں نے نہایت پُر امن طریقے سے اسلام کے احیاء کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ۔ انہوں نے برصغیر ہندو پاک کے تمام مذاہب کے پیروکاروں پر یہ حقیقت آشکارکر دی کہ اسلام امن وعافیت کا دین ہے اور اس کا پیغام اخوت و محبت کا پیام ہے اور یہ پیام و پیغام صرف انہی کے لیے نہیں ہے جو حلقہ بگوش اسلام ہیں یہ پیغام تو تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ہے کہ وہ اللہ کی طرف لوٹ آئیں اور اس کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ؐ کے دین اسلام میں جوق در جوق داخل ہو جائیں کہ یہی دین انسانوں کو راستی کی طرف لے جاتا ہے اور اسی میں دنیا اور آخرت کی فلاح مضمر ہے۔ حضرت شیخ احمد فاروقی ؒ عالمگیر پیغام محبت کو لے کر اٹھے اور سرہند کو تصوف کی دنیا میں ایک غیر فانی مقام عطا کر گئے۔ انہوں نے سرہند کے مرکز ملت سے سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو آواز دی اورا نہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کا اہتمام کیا، دین اسلام کی حقانیت پر ان کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ یہ فقیر خدا منش نہ وقت کے حکمرانوں کے سامنے جھکا نہ اس نے منبر و محراب سے اٹھنے والی علمائے سوء کی مخالفت کی کوئی پروا کی انہوں نے تصوف کی دنیا کے سیاہ کاروں کے تاروپود بھی بکھیرے اور جو لوگ دین کے پردے میں لادینیت کی جڑیں مضبوط کر رہے تھے، ان کو بھی بے نقاب کیا اور وہ برسوں کی صبر آزماء جدوجہد سے لوگوں پر یہ حقیقت واضح کر سکے کہ اسلام کا اصل چہرہ کیا ہے۔
نقشبندی سلسلہ کے صوفیاء نے ہندوستان میں تجدید احیائے دین کی جدوجہد میںنہایت اہم کردار ادا کیا، اس جدوجہد کی ابتداء نقشبندی سلسلے کے بانی حضرت خواجہ باقی باللہؒنے کی۔ خواجہ باقی ؒ نے حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند بخاری ؒسے اکتساب فیض کیا تھا۔ جنہوں نے حقیقت میں نقشبندی سلسلے کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ کی ولادت باسعادت 5جون 1564ء کو ہوئی۔ روایات میں آیا ہے کہ ان کی ولادت کی نوید برسوں پہلے ہی دے دی گئی تھی اور حضرت خواجہ باقی باللہ رحمتہ اللہ علیہ کی ہندوستان آمد اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے حضرت شیخ احمد سرہندی کی ولادت کی خوشخبری پانچ سو برس پہلے دے دی تھی اور اپنے بیٹے شیخ عبدالرزاق کو وہ خرقہ بھی عطا فرما دیا تھا، جو نسل درنسل منتقل ہو کر حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ کو عطا کیا جانا تھا۔ یہ کام آخر کار1604ء میں سید سکندر قادریؒ کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ سید سکندر قادری کا تعلق عظیم مسلمان صوفی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے خاندان سے تھا۔ حضرت شیخ احمد سرہندی کی ولادت کے بارے میں بہت سی روایات ہیں، جن میں سے ایک روایت یہ ہے کہ جب وہ دنیا میں تشریف لائے تو تمام وہ صوفیاء جو اس وقت تک گزر چکے تھے۔ حضرت شیخ احمد ؒ کی والدہ محترمہ کو مبارک باد دینے کے لیے تشریف لائے ۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ حضرت شیخ احمد کے والد شیخ عبدالاحد اگرچہ تصوف میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے، لیکن انہیں نقشبندی سلسلے سے کوئی سروکار نہ تھا، جب 1598-99ء میں ان کے والد نے داعی اجل کو لبیک کہا تو حضرت نے فریضہ حج ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیا اور راستے میں دہلی قیام کیا، یہیں آپ کی ملاقات حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ سے ہوئی۔ آپ نے حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے پاس قیام کا فیصلہ کیا اور حج پر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور یہیں اپنے روحانی پیشوا کے قدموں میں رہ کر دولت ایمانی حاصل کر لی۔ حضرت باقی باللہؒ نے دو ماہ تک شیخ احمد ؒکو تزکیہ کے عمل سے گزارا اور پھر انہیں سرہند چلے جانے کا حکم دیا۔ چار سال تک آپ سرہند میں ایمان و ایقان کی روشنی بکھیرتے رہے اور پھر جب آپ دوبارہ حضرت خواجہ باقی باللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ باقی باللہ نے ان کی غیر معمولی پذیرائی کی۔ یہ پذیرائی حضرت باقی باللہ ؒ کے دوسرے مریدوں میں بدگمانی کا سبب بھی بنی، جس پر آپ پھر سرہند تشریف لے آئے۔ حضرت شیخ احمد سرہندی سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ہو کر1603ء میں پھر دہلی تشریف لے گئے اور اپنے مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ کی خدمت اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔ بعدازاں حضرت مُجدد الف ثانی لاہور تشریف لائے جہاں صوفیاء اور علماء نے ان کا دل کی گہرائیوں سے خیر مقدم کیا، لاہو رمیں قیام ہی کے دوران آپ کو اپنے روحانی پیشوا حضرت خواجہ باقی باللہ رکے سانحہ ارتحال کی خبر ملی ، جس پر آپ نے لاہور کا قیام مختصر کر دیا اور پھر دہلی تشریف لے گئے، جہاں انہیںسلسلہ نقشبندیہ کی سربراہی کا اعزاز عطا کیا گیااور اس حیثیت میں آپ کی دستاربندی ہوئی۔ یہ وہ گھڑی تھی جب شیخ احمد سرہندی ؒ کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔ یہ وہ دور تھا جب ہندومت کے زیر اثر آنے پر یہ محسوس کیا جانے لگا کہ اہل اسلام کو اسلام کی اصل تصویر سے آشنا کیا جائے۔اکبر کا دین الٰہی بھی اپنا کام دکھانے لگا تھا حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ نے ان تمام فتنوں کے خلاف مسلمانوں کو شعور اور آگہی عطا کی۔ علماء سوء اور بھٹکے ہوئے صوفیاء نے اپنے اپنے مفادات کے تابع حضرت شیخ احمدؒ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن حضرت شیخ احمد ؒنے اپنے مرشد حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے سونپے ہوئے مشن اور نصب العین کو پورا کرنے کا پختہ عزم کر لیا اور اسلام کا آفتاب پھر ہندوستان کے آسمان پر ضوفشاں ہو گیا۔ حضرت شیخ احمد سرہندی ؒ مجدد الف ثانی ؒ کا وصال63سال کی عمر میں 26نومبر1624ء کو ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے وصال سے تبلیغ، تصوف، معاشرتی اصلاح، تزکیہ و تقویٰ کا وہ سورج غروب ہو گیا جو حضرت خواجہ باقی باللہ ؒ کے بقول صوفیاء میں مانند ماہتاب تھااور جس نے ہندوستان میں تصوف کے وہ چراغ روشن کئے ، جن سے وہ آج تک منور چلا آرہا ہے۔ تجدید و اصلاح دین کے اس کام میں مجدد الف ثانی کا کوئی ثانی نہیں، انہیں نے اپنے مکاتیب اور دینی تصانیف اور ان کے خلفاء اور مریدوں کی تحریری کاوشوںنے متحدہ ہندوستان میںجو اب پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش پر پھیلا ہوا ہے ۔خانقاہ عالیہ روضہ شریف برصغیر پاک و ہند میں نقشبندی سلسلہ کے مزارات مقدسہ میں مقدس ترین مقام ہے، اس چشمہ فیض کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ برصغیر کے طول و عرض سے ہزاروں افراد جوق در جوق فیض حاصل کرنے روضہ شریف آتے ہیں اس وقت روضہ شریف کے سجادہ نشین خلیفہ حضرت سید محمد یحییٰ نقشبندی مجددی کے صاحبزادے سیدمحمد صادق رضا ہیں روضہ شریف فتح گڑھ صاحب کے قریب سرہند بسی پٹھاناں روڈ پر واقع ہے۔
یہ آستانہ عالیہ روضہ شریف1922ء میں صوبہ بمبئی سے تعلق رکھنے والے حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے پیروکاروں نے تعمیر کیا تھا۔ ایک زائر جو نہی صدر دروازے سے آستانہ عالیہ روضہ شریف میں قدم رکھنے کی سعادت حاصل کرتا ہے تو اس کے اندر ایمان کی روشنی نورونکہت بکھیر دیتی ہے اور وہ اپنے ایمان کو مستحکم اور محکم محسوس کرنے لگتا ہے۔ روضہ شریف آنے والے یہاں سے ایک نیا عزم اور ایمان لے کر واپس جاتے ہیں اور ان کا بسیرا انہی شکستہ و خستہ حجروں میں ہوتا ہے، بے شمار لوگ رمضان المبارک کا پورا مہینہ ان حجروں میں بسر کرتے ہیں۔ سالانہ عرس کے زمانہ میں یہ حجرے زائرین سے بھر جاتے ہیں ۔

مزیدخبریں