حضرت مجدّد الف ثانیؒ

علامہ منیر احمد یوسفی
حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقیؒ کی ولادتِ باسعادت سرہند شریف ضلع پٹیالہ مشرقی پنجاب میں جمعۃ المبارک کی رات قریباً نصف شب گزرے 14 شوال المکرم 971ھ کو ہوئی۔ اِس ماہِ تاباں کے اُفقِ دُنیا پر طلوع ہونے سے بے حد خوشی اور مسرت کا اِظہار ہوا۔ مخدوم شیخ عبدالاحد نے نبی کریمؐ کی بشارت اور اِلہام کے مطابق حضرت مجدّد الف ثانی کی کنیت ابو البرکات‘ لقب شریف بدرالدین اور اِسم مبارک شیخ احمد مقرر کیا۔آپ کو مجدّد الف ثانی اِس لیے کہتے ہیں کہ سرکارِ کائنات ؐ کے وصالِ مبارک کے ایک ہزار سال پورے ہو رہے تھے کہ شیخ احمد سرہندی کی ولادت ہوئی اور آپ نے دینِ اسلام کی تجدید و حفاظت اور احیائے شریعت کا جو عظیم کام برصغیر پاک و ہند میں سرانجام دیا‘ وہ اِسلام کی پوری تاریخ میں ایک خاص اِمتیازی شان رکھتاہے۔ اِسی وجہ سے آپ کا لقب مجدّد الف ثانی ایسا مشہور ہو گیا۔ لوگ آپ کواِمام ربّانیبھی کہتے ہیں۔
مجدّد کا لفظ ایک حدیث پاک سے ماخوذ ہے جس کو اِمام ابو داؤد (وصال 725ھ) نے اپنی مایہ ناز کتاب سنن ابو داؤد شریف میں نقل کیا ہے۔ سیّدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’اللہ اِس اُمّتِ (مرحومہ) کے لیے ہر سو سال کے سرے پر اَیسے بندے پیدا فرمائے گا (بھیجے گا) جو اِس کے لیے اِس کے دین کی تجدید کرتے رہیں گے‘‘۔ (اوّل کتاب الملاحم۔ جلد 2 ص 241 ، سنن ابوداؤد)۔
تاریخِ اُمّتِ محمدیہؐ اِس بات کی شاہد ہے کہ ہر صدی میں ایسے برگزیدہ بندے پیدا ہوتے رہے ہیں اوردینِ مصطفی ؐ کی تجدید کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ شیخ احمد سرہندی فاروقیکہ جن کو دُنیا مجدّد الف ثانی کے نام سے یاد کرتی ہے،آپ کا سلسلۂ نسب 31 واسطوں سے خلیفۂ ثانی مرادِ مصطفی ؐ حضرت عمر بن خطاب فاروقِ اعظمؓ تک پہنچتا ہے۔ آپ نسبتِ فاروقی پر اِظہارِتشکرکیا کرتے تھے۔ آپ نے حضرت خواجہ باقی باللہ (وصال 1012ھ) سے اِکتسابِ فیض کیا ہے۔ سرہند شریف میں کچھ عرصہ قیام فرمانے کے بعد آپ نے لاہور کا سفر کیا۔ لاہور اُس وقت دہلی کے بعد علوم و فنون کاسب سے بڑا علمی مرکز تھا۔ جب آپ لاہور تشریف لائے تو علمائے کرام اور مشائخ عظام کی ایک کثیر تعداد نے آپ کا والہانہ اِستقبال کیا۔ زبدۃ المقامات خواجہ ہاشم کشمی ص 158۔ حضرت مجدّد الف ثانی اَبھی لاہور ہی میں تھے کہ حضرت خواجہ باقی باللہ کے اِنتقالِ پُرملال کی خبر ملی تو آپ فوری طور پر دہلی روانہ ہو گئے۔ ایک اِضطرابی و اِضطراری حالت میں دہلی کی طرف محو سفر تھے راستہ میں سرہند پڑتا تھا لیکن گھر نہ گئے۔ پہلے اپنے شیخ حقانی مرشد زماں کے مزار پر حاضر ہوئے۔ مرشد زادوں اور برادرانِ طریقت سے تعزیت کی اور اُن کے پاس چند روز دہلی میں قیام فرمایا اور تربیت و اِرشاد کی محفل جو حضرت خواجہ کے اِرتحال سے سونی ہو گئی تھی‘ دوبارہ آباد ہو گئی اور مغموم و مجروح دِل شگفتہ اور تازہ ہو گئے۔ تاریخ دعوت و عزیمت جلد 4 ص 154من و عن۔
مجدّد الف ثانی کچھ روز قیام دہلی کے بعد سرہند تشریف لائے اور سلسلۂ دعوت و تبلیغ شروع فرمایا۔ آپ صرف عوام الناس کو ہی تبلیغ نہ فرماتے تھے بلکہ اَراکینِ حکومت اور اَربابِ حل وعقد کو بھی دعوت و تبلیغ فرماتے تھے۔ جلال الدین اکبر نے جب اِعلانیہ دعویٔ اُلوہیت کیا اور ملعون بادشاہ فرعون کی طرح تختِ نخوت پر بیٹھ کر خلقت سے سجدہ کرواتا اوراَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی۔ ’’میں تمہارا سب سے اعلیٰ پروردگار ہوں‘‘ کا دم مارتا اور نمرود مردود کی طرح رعونت کے تخت پر بیٹھ کر لِمَنِ الْمُلْکُ یعنی کس کا ملک ہے‘کا نقارہ بجاتا، سجدہ نہ کرنے والوں کو قتل کر دیتا‘ اَیسے میں حضرت مجدّد الف ثانی نے بادشاہ کے خلاف سخت ناراضگی کا اِظہار کیا۔ آپ نے خانِ خاناں‘خانِ اعظم‘ سیّد حیدر جہاں اور مرتضیٰ خاں وغیرہ کے ہاتھ ‘ جو مجدّد الف ثانی کے مرید اور اکبر بادشاہ کے مقربِ خاص تھے بادشاہ کو نصیحت آمیز مکتوبات اورکلمات کہلوا بھیجے۔
اِبتدائی کامیابی یہ حاصل ہوئی کہ لوگوں کو یہ اِختیار دیا گیا کہ وہ دینِ محمدیؐ میں رہیں یا اکبر کے اِختراع کردہ دینِ اِلٰہی میں آ جائیں۔ جو ملازم لوگوں کو زبردستی بادشاہ کے پاس سجدہ کے لیے لایاکرتے تھے اُنہیں تاکید اً منع کیا گیا کہ آئندہ کسی کو زبردستی نہ لایا جائے۔‘‘
شانِ خدا ایک دِن اکبر نے خود ساختہ دینِ الٰہی کے پرچارکے لیے وقت مقرر کیا۔جب یہ خبر حضرت مجدّد الف ثانی نے سُنی تو فرمایا کہ کشف یوں ظاہر ہوا ہے کہ اِس مقررہ دن میں بادشاہ پر غضبِ اِلٰہی بالضرور نازل ہو گا۔ جب وہ مقررہ دِن آیا تو کافر و مرتد بادشاہ نے اپنے محل کے بالاخانہ میں بیٹھ کر صحن کے نیچے وسیع میدان میں دربارِ عام منعقد کیا۔ اِس وسیع میدان میں دو بارگاہیں بنوائیں۔ ایک کو زرد دیبا سے آراستہ اور جواہر و یاقوت سے جڑاؤ کرایا گیا اور اُس کا نام بارگاہِ اکبری رکھا گیا اور دوسری پُرانی بارگاہ جس میں پرانا ہونے کی وجہ سے قائم رہنے کی بھی سکت نہ تھی اور اُسے جگہ جگہ سے کیڑے نے کھا کر چھلنی بنا رکھا تھا۔ اُس کا نام بارگاہِ محمدیؐ رکھا گیا۔ بارگاہِ اکبری میں قسم قسم کے لطیف نفیس اور پُرتکلف کھانے اور میوے سجائے گئے اور بارگاہِ محمدیؐ میں بالکل نامرغوبِ طبع، بے مزہ طعام رکھے گئے۔ لوگوں کو عام دعوت دی گئی ۔ بادشاہ کے بڑے بڑے عہدیدار اور امیر و وزیر سلطنت کے تنخواہ دار تو بارگاہِ اکبری میں داخل ہوئے اور مجدّد الف ثانی اپنے تمام مریدوں بشمول خانِ خاناں‘ مرتضیٰ خاں‘ سیّد حیدر جہاں اور خانِ اعظم وغیرہ اور بہت سے غریب لوگوں کے ساتھ جو اِسلام کے شیدائی تھے‘ حضور سیّد الاوّلین والآخرینؐ کی بارگاہِ کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت مجدّد الف ثانی نے ایک شخص کو بھیجا کہ بارگاہِ محمدیؐکے گردا گرد ایک لکیر کھینچ آئے۔ اُس شخص نے اَیسا ہی کیا اور مُٹھی بھر خاک جو مجدّد الف ثانی نے اُسے دی تھی بادشاہ کی طرف پھینکی، اِس کے پھینکتے ہی شمال کی طرف سے ایک آندھی اُٹھی جس نے اکبری بارگاہ کو تہہ و بالا کر دیا۔ چنانچہ طعام کے رکاب، خیموں کی میخیں اور رسیاں وغیرہ اُکھڑ گئیں اور سارے خیمے اور سائباں اہلِ بارگاہ کے سروں پر پڑے حتیٰ کہ وہاں ایک ہلاکت خیز منظر تھا۔ جس بالاخانہ پر بادشاہ بیٹھا تھا اُس کے کواڑ بادشاہ کے سر پر لگے اور سات زخم آئے۔ اکبر زمین پر گرِ پڑا جس سے اُس کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ سات روز بعد اکبر بادشاہ اُن زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا ۔اِس روز ہزار ہا آدمی حضرت کے مرید ہوئے جن میں خاں جہان لودھی‘ سکندر خاں لودھی اور دریا خاں بھی شامل تھے ۔ (روضۃ القیومیہ ص220 تا 227 مختصراً)
اکبر کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا۔ اکبر کے مقابلے میں اُس کو دین سے کوئی عناد نہیں تھا مگر یہ بھی لوگوں سے سجدہ کرواتا تھا مجدّد الف ثانی نے اَرکانِ سلطنت اور اُمرائے دربار کے نام خطوط لکھے تھے۔ یہ خطوط اِصلاحِ حال حمایتِ اسلام اور دین کی حمیت کے سلسلہ میں تھے۔ جہانگیر کا وزیرِ بے تدبیر آصف جاہ منافقانِ دین سے مل کر پوشیدہ ہی پوشیدہ مجدّد الف ثانی کے بارے میں صلاح و مشورہ کیاکرتا تھا۔آصف جاہ کے بہکانے پر جہانگیر حضرت مجدّد الف ثانیکی طرف سے سخت بدظن ہو گیا اور حضرت مجدّد الف ثانی کو دربار میں بلایا۔ آپ دربار میں تشریف لائے مگر سجدہ نہ کیا۔ بادشاہ نے ناراض ہوکر آپ کو گوالیار کے قلعہ میں نظر بند کرنے کا حکم دے دیا۔ نظر بندی کا یہ واقعہ ربیع الثانی 1028ھ میں پیش آیا۔ قید کے بعد آپ کی ساری جائیداد جن میں کتابیں بھی تھیں‘ ضبط کر لی گئیں مگر آپ نے گوالیار کے قلعہ میں تبلیغ و اِرشاد کا کام جاری رکھا اور کئی ہزار قیدی مشرف بہ اِسلام ہوئے۔
جہانگیر ایک رات تخت پر بیٹھا تھا اور مجلسِ عیش و نشاط گرم تھی۔ اَچانک مجدّد الف ثانی مجلس میں آئے اور بادشاہ کو مع تخت اُٹھا کر پٹخ دیا اور خود غائب ہو گئے۔ بادشاہ بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو بادشاہ سخت شرمندہ ہوا اور اُسی وقت ایک عرضی لکھی اور اپنی خطاؤں پر بہت معافی مانگی اور رہائی کا اعلان کیا مگر آپ نے جواباً چند شرائط لکھ بھیجیں کہ اگر یہ منظور ہیں تو مَیں آؤں گا‘ ورنہ جیل میں ہی خوش ہوں۔
(1) سجدہ کرانا ختم کرو (2) ہندوستان کے تمام ممالکِ محروسہ میں جو مسجدیں گرائی گئی ہیں اُنہیں از سرِ نو تعمیر کروا دو ،باطل رسوم و آئین اور بدعات کو ترک کیا جائے اور تمام قیدی رہا کئے جائیں۔
اُدھر بادشاہ نے اُن تمام شرائط کو منظور کر لیا اور اپنے بہت سے اُمراء کو آپ کی خدمت میں بھیجا تاکہ اُنہیں نہایت تعظیم و تکریم سے لشکر شاہی میں لائیں۔ جب اُمراء پہنچے تو آپ بھی امرِ الٰہی کے مطابق قلعہ سے باہر آئے اور جو قیدی مدتوں سے اِس قلعہ میں پڑے سڑ رہے تھے اُنہیں بھی رہائی مل گئی۔ اُنہوں نے عرض کی کہ اب اِس دَر کو چھوڑ کر اور کہاں جائیں؟ اِس واسطے وہ بھی آپ کے ہمراہ ہوئے‘ چنانچہ بادشاہ نے آپ کی شرائط کے مطابق بھرپور عمل شروع کر دیا۔
شاعرِ مشرق عاشقِ رسولؐ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے بالِ جبریل میں حضرت مجدّد الف ثانی کی منقبت کو اپنے خصوصی اَنداز میں سمندر کو کوزے میں بندکرتے ہوئے چند جملوں میں یوں بیان کیا ہے ؎
حاضر ہوا میں شیخِ مجددّ کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعٔ انوار
یہ عظیم ہستی مجدّدِ وقت شیخ احمد سرہندی فاروقی المعروف اِمام ربّانی مجدّد الف ثانی 28 صفر المظفر 1034ھ کو اس عالمِ فانی سے عالمِ بقاء کی طرف سفرکرگئی۔ اِنَّآ لِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَo

ای پیپر دی نیشن