میں نے اپنے کالموں میں بارہا لکھا کہ مسلمانوں کے پاس حُب رسولؐ ہی ایک ایسی قوت ہے ‘ جس سے وہ ہر مقصد اور نصب العین حاصل کر سکتے ہیں‘ لہٰذا عشق رسولؐ کی شدت و طاقت اغیار کے لیے ایٹم بم سے بھی زیادہ ہے‘ ہر صالح اور نیک مقصد کے لیے حب رسولؐ کی توانائی بروئے کار لائی جاسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ایمانی وایقانی انرجی کو استعمال کرنے کے لیے مسلمانوں نے کبھی اپنا قبلہ راست نہیں کیا ‘ علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور نظام فکر میں جابجا اس جانب توجہ دلائی ہے‘ صوفیائے کرام کی فکر اور فلسفہ بھی اس جانب بھرپور اشارے کرتا ہے کہ کلمہ گو مسلمان اپنے عشق رسولؐ کے جذبے کو سنبھال کررکھیں اور بوقت ضرورت پوری توانائی کے ساتھ بروئے کار لائیں‘ اس حوالے سے حکومت وقت کو غلط فہمی ہوئی کہ لبیک یا رسول اللہ کے سرفروش کوئی عام سیاسی جماعت کے کارکنان ہیں‘ انہیں اس امر کا ادراک ہی نہیں ہوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حُب رسولؐ کا زور آور جذبہ ہے‘ جو اس بے پایاں جذبے کے تحت ناممکنات کو ممکنات بناسکتے ہیں اور ہر وہ کام کرسکتے ہیں جو ازحد مشکل اور زور آور ہو۔ تاریخ اسلام میں اس سکت کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ اہم بات یہ کہ یہ قوت وطاقت سیاسی ماحول کے کسی جذبے یا پہلو میں نہیں‘ حکمرانوں کو اس امر کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا‘ ایسے لوگوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا جو رسول اللہؐ سے اس حد تک پیارکرتے ہیں کہ اپنے ماں باپ اور بچوں سمیت سب پیاروں کو منہا کر دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے تو اس جذبے کی وسعت وافادیت کو اپنے ایک شعر میں اس طرح عیاں وبیاں کر دیا تھا …؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
تحریک لبیک یا رسول اللہ کے کارکنان غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں‘ وہ سچے اور کھرے مسلمان ہیں‘ ان کے دینی جذبوں میں سب سے بڑا توانا جذبہ رسول اللہؐ کے ساتھ روحانی وابستگی ہے ‘ ایسے لوگ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے اثاثہ ہوا کرتے ہیں‘ سوال یہ ہے حکمران اس صورت حال کا بخوبی ادراک حاصل کرنے میں کیوں کوتاہی کا مرتکب ہوئے ہیں؟ مسلم لیگ ن کی حکومت چاہے کتنی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اور باایمان ہو‘ یہ دعوی نہیں کرسکتی کہ اس کی صفوں میں سیکولر اور لادینی اذہان کے لوگ موجود نہیں ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جومقننہ میں بھی اپنی کلیدی حیثیت سے موجود ہیں اور قانون سازی کے کرتا دھرتا بھی بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ ساری خرابی انہی لوگوں کی وجہ سے ہے اور کلمہ گو مسلمان ایک دوسرے کی گردنوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ان سیکولر اور لادینی عناصر کی صفوں میں قادیانی بھی موجود ہیں جو دھیرے دھیرے اپنے باطل نظریات کا زہر پھیلا کر مخصوص عزائم حاصل کرتے رہتے ہیں‘ کبھی روشن خیالی کے نام پر ‘ کبھی حقوق انسانیت کے نام پر اور کبھی جمہوریت اور مساوات کی ذیل میں ایسے پراگندہ ذہن لوگ پاکستان کی نظریاتی اساس کے درپے ہیں اور کلیدی نظریات ازقسم ختم نبوت کو بدلنے کے منفی کاز پر کام کررہے ہیں۔ یقیناً یہ عناصر پاکستان دشمنوں کی صفوں کو ہمہ وقت سونگھتے رہتے ہیں۔ جن کو اس وطن عزیز کی اساس سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ سوال صرف ایک ہے اگر عشق رسولؐ کے لافانی جذبے کے حامل یہ دینی عناصر موجود نہ ہوں تو نجانے حکومتی صفوں میں مستور اسلام دشمن کیا گل کھلا دیں اور اس ملک کے بہتے ہوئے فطری بہاؤ میں کیا کیا رخنے اٹکا دیں۔ لہٰذا ایسے باایمان سرفروشوں کی جماعت کا ہونا اسلامیان پاکستان کے لیے ناگزیر اور ازحد ضروری ہے۔ لیکن اس حوالے سے بہت سے معاملات یکسو ہونا بھی ضروری ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ پاکستان کے عمومی شہری باایمان مسلمان اور گناہ کار سہی حُب رسولؐ کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں سوال یہ بھی ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے قائدین اور کارکنان کو ان مسلمانوں کے مصائب ومشکلات کا ادراک کیوں نہیں ہوا؟ اسلام کلمہ طیبہ کے رشتے سے اسلامیان پاکستان کے باہمی پیار کے ناطے میں بندھا ہوا ایک دین ہے ‘ دہشت گرد اپنے منفی عزائم کے لیے اچھے اور برے کی تمیز نہیں کرتے لیکن لبیک یا رسول اللہ تحریک کے ساتھ وابستہ اہل ایمان کو تو اپنے پرائے کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ صحیح حقائق کا حامل نہیں کہ راستے بند ہونے سے ہی حکومت کے موقف میں لچک پیدا ہوئی اور وہ صائب فیصلے کرنے کی نہج پر آسکی‘ اگر ایسا تھا تو حکومت کو چند ہفتوں پہلے ہی اس نتیجے پر آجانا چاہیے تھا‘ دراصل حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج سانحہ ماڈل ٹاؤن کا اعادہ تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ کوئی مذکورہ سانحہ جیسا ایک قضیہ اور کھڑا کر دیا جائے ‘ پھر اس حقیقت کے پیش نظر تحریک لبیک پاکستان والے حکومتی لائحہ عمل اور اس کی ترجیحات سے واقف کیوں نہ ہوئے؟انہیں دھرنے کے وقت خود جڑواں شہروں کے معصوم اور کلمہ گو شہریوں کو گزرنے کے لیے راستہ دے دینا چاہیئے تھا،یا کم از کم دھرنے کے ایک طرف بوڑھوں،عورتوں ،بچوں ،معذوروں اور مریضوں کے لیے گزرنے کا کوئی راستہ و اگزار کردینا چاہئے تھا۔مگر ایسا نہ ہوسکا،یہ متشدد رویہّ ایک نوبل کاز کے لیے درست نہیں تھا۔اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ تحریک لبیک یارسول ؐ اﷲ کے احتجاج میں شریک عام معصوم راسخ العقیدہ مسلمان شہری راستوں کی بندش سے نالاں ہوکر تحریک میں علیحدہ ہوگئے وہ صرف تماشائی کا کردار ادا کرنے لگے ۔پھر یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ بہت سے دینی رہنما جو عام حالات میں عوام الناس کے لیے رول ماڈل تک بن جاتے ہیں کے ساتھ ساتھ بہت سی سیاسی و دینی جماعتیں اس معاملے میں الگ تھلک رہیں، ان میں مولانا طارق جمیل سے لے کر مولانا فضل الرحمن اور دیگر سنی و بریلوی علماء کرام بھی شامل ہیں، جماعت اسلامی،جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور دیگر دینی جماعتیں الگ تھلگ ہیں،ایسا کیوں ہوا؟کیا ختم نبوت کا مسئلہ اہل تشیع یا اہل حدیث کا نہیں تھا؟وہ کہاں تھے؟یہ تمام سوالات لمحہ فکریہ ہیں اور اس حقیقت کو بھی واضح کرتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔حد یہ ہے کہ سال میں کئی مرتبہ عمرہ اور سالانہ حج کرنے والے دینی و سیاسی رہنما بھی نظر نہیں آئے،یہ سب لوگ کہاں تھے؟کیا ختم نبوت صرف تحریک لبیک یارسول ؐ اﷲ کا ہی مسئلہ تھا، اگر یہ صرف مذکورہ دینی تحریک ہی مسئلہ تھا تو پھر ختم نبوت کا مقدمہ بہت کمزور رہا اور جو کامیابی تحریک نے حاصل کی وہ خاکم بدہن کہیں وقتی ثابت نہ ہو۔ان امور پر سب کو غور و خوض کرنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ ختم نبوت کے ایمانی کاز پر پوری امت مسلمہ یک جان ہوکر باطل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے تاکہ آئندہ کسی بھی متنازعہ افراد کو اس ضمن میں ریشہ دوانیوں کا موقع نہ مل سکے،اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر ختم نبوت کے ایمان کے لبریز تتر بتر اہل ایمان کو کسی اگلے سازشیوں کی مبینہ سازشوں پر نظر رکھ کر انہیں شکست دینے کے لیے فیض آباد پل کے نیچے دوبارہ بیٹھنا پڑے گا (اﷲ نہ کرے)۔